امریکی صدرکے ہوتے ہوئے کالم نگاروں کو موضوعات کے حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا پسندیدہ موضوع ایران ہے۔ ایران کے حوالے سے ٹرمپ جتنے بیانات دے چکے ہیں اتنے متضاد بیانات امریکا کے کسی صدر نے شاید نہ دیے ہوں۔
اب ایک تازہ بیان میں ٹرمپ کے وزیرخارجہ نے فرمایا ہے کہ ’’ہم کسی پیشگی شرط یا شرائط کے بغیر ایران سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘‘ امریکا کا یہ بیانیہ بلاشبہ بہت حوصلہ افزا ہے لیکن ڈر یہ لگا رہتا ہے کہ ایران کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے سابقہ بیانیے سے زیادہ سخت کوئی تازہ بیانیہ سامنے نہ آجائے۔ صدر ٹرمپ ایک طرح سے امریکی سیاست کے مرد آہن ہیں وزیر خارجہ کے بیان کو اگر دنیا ٹرمپ کا بیانیہ سمجھتی ہے تو غلط نہیں سمجھتی۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فرمایا ہے کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ کسی پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ایران کو ایک ذمے دار ملک کے طور پر آگے آنا چاہیے۔ پومپیو نے کہا ہے کہ مذاکرات میں ایران کے جوہری ہتھیاروں پر بات ہوگی۔
دوسری طرف ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران ڈرکر امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا، اگر امریکا پورے احترام کے ساتھ اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو ایران بھی دلیل کے ساتھ مذاکرات پر یقین رکھتا ہے۔ حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران یہ باورکراچکا ہے کہ وہ دھونس دھاندلی اور لالچ کے آگے نہیں جھکتا۔ جاپانی وزیر اعظم شیزو اپنے دورہ ایران کے دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کریں گے ۔ ایک تازہ خبر کے مطابق جاپانی وزیر اعظم شیزو دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں آج کا یہ دورہ ایران انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ کالم شایع ہونے تک جاپانی وزیر اعظم کا دورہ ایران غالباً ہوچکا ہوگا۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے ملا لوگ انتہائی نڈر ہیں وہ ٹرمپ کی کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ایران کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایران جس خطے کے لیے امریکا سے بھڑا ہوا ہے (یعنی مشرق وسطیٰ کے لیے) بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ کے عرب حکمران ایران سے غیر منطقی طور پر خائف ہیں اس خوف کی وجہ یہ بھی ہے کہ خطے میں بادشاہتیں ہیں چونکہ یہ حکمران شخصی حکمران ہیں جمہوریت سے ان کا سرے سے کوئی واسطہ نہیں، سو انھیں عمومی طور پر عوام کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ عوام کی طرف سے لاحق خوف کی وجہ بادشاہ اور شیوخ بھاری معاوضے کے ساتھ امریکا کی سرپرستی حاصل کرتے ہیں۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے بدقسمتی سے عشروں پر پھیلی ہوئی اس کشیدگی کو ختم کرنے کی نہ کوئی مسلم حکومت کوئی رول ادا کرسکتی ہے نہ کوئی مسلم تنظیم مثلاً او آئی سی عرب لیگ وغیرہ ایران اور عربوں کو قریب لانے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔امریکا اور اس کے اتحادی اس مسئلے کو جان بوجھ کر اس لیے حل نہیں کرنا چاہتے کہ اس مسئلے کی وجہ سے عرب ممالک امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں سے اربوں ڈالر کا عشروں سے اسلحہ خرید رہے ہیں۔
اگر ایران اور عرب دوست بن جاتے ہیں تو پھر اس کے اربوں ڈالر کے اسلحے کی تجارت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا جمہوریت کا سرپرست اور چیمپئن ہے لیکن یہ کس قدر حیرت اور شرمندگی کی بات ہے کہ وہ عرب بادشاہوں اور شیوخ کا حامی ہی نہیں سرپرست بھی ہے، یہ حکمران ایران سے اپنی سلطنتوں کو بچانے کے لیے امریکا کی دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ امریکا اور اتحادی ملک ایران اور عرب ملکوں کے تنازع کو کبھی حل ہونے نہیں دیں گے۔
یہی حال تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کشمیر اور فلسطین کا ہے۔یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایران ایک سخت اور کٹر فقہی ملک بنا ہوا ہے۔ دنیا کی ناقابل یقین اور حیرت انگیز سائنسی ترقی کے پس منظر میں فقہی جھگڑے قابل افسوس ہیں، ان جھگڑوں کی وجہ سے مسلم دنیا پسماندگی کی دلدل سے باہر نہیں آ پا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس غیر منطقی جھگڑوں سے مسلم دنیا باہر آسکے گی اور متحد ہوسکے گی؟امریکا اور مغرب ان غیر منطقی اور جاہلانہ جھگڑوں کو کبھی حل ہونے نہیں دیں گے کیونکہ یہ اربوں روپوں کا دودھ دینے والی بھینس ہے۔ کیا 56 مسلم ملکوں کی قیادت اس قدر نااہل ہے کہ جاپان کے وزیر اعظم ایران اور امریکا کے درمیان ثالثی کرانے جا رہے ہیں۔
امریکا کے وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ اگر ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہوں گے تو ان کا موضوع ایران کے ایٹمی ہتھیار ہوگا ایران اور شمالی کوریا کا حکمران طبقہ ہمیشہ سے امریکا کا باغی رہا ہے لیکن ان کی بغاوت یا باغیانہ روش کو امریکی حکمران خاص طور پر امریکا بھاری اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتا آرہا ہے۔ شمالی کوریا پر اتنی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں کہ اب وہ کسی حد تک امریکا کے دباؤ میں آگیا ہے لیکن ایرانی ملا اس قدر سخت ہیں کہ وہ لاکھ دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب امریکا نے جاپانی وزیر اعظم کو آگے بڑھایا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا ایران کے سخت گیر ملاؤں کو رام کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ 56 مسلم ملکوں میں سے ایک ملک کی قیادت بھی اس قابل نہیں کہ ایران اور عربوں کے درمیان موجود اختلافات کو ختم کرا کر مسلم اتحاد کی راہ میں پڑے اس روڑے کو دور کرنے کی کامیاب کوشش کرسکے۔
The post امریکا کی راہ میں رکاوٹ ایران ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2MNjr0J
via IFTTT
No comments:
Post a Comment