وہ دو سال سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا‘ تھر میں خشک سالی کا دور تھا‘ چار سال سے بارشیں کم ہوئی تھیں‘ زمین میں کچھ بھی اگایا نہ جا سکا‘ محنت مزدوری سے دو تین سو روپے مل جاتے تھے لیکن وہ بھی کبھی کبھار ملتے تھے‘ سو ماریو نے چار سال پہلے قرضہ لیا تھا‘ یہ بڑھتا جا رہا تھا‘ نوبت فاقوں تک آ چکی تھی‘ وہ اپنے آپ کو دیکھتا‘ بچوں کو دیکھتا اور پھر آسمان والے کی طرف اور ٹھنڈی آہیں بھرتا‘ مہینوں گزر گئے‘ بارش ہوئی نہ کھیتی سیراب ہوئی‘ پریشانی‘ بھوک اور افلاس بڑھتی جا رہی تھی۔
آخر سوماریو نے فیصلہ کر لیا وہ بچوں کے ساتھ ڈیپلو سے نقل مکانی کر جائے گا‘ وہ گوٹھ میار پور چھوڑ دے گا‘ گھر کا جو تھوڑا بہت سامان تھا وہ باندھا اور بچوں کے ساتھ تھر کی گرمی میں پیدل انجانی منزل کی جانب چل پڑا‘ وہ جاتے جاتے حسرت سے اپنی زمین کو دیکھتا تھا‘ وہ دس ایکٹر زمین کا مالک تھا مگر بنجر زمین سے بھوک تو نہیں مٹ سکتی‘ سوماریو گائوں سے نکل ہی رہا تھا کہ اسے مسیحا مل گیا‘ تھر کے باسیوں کی فکر کرنے والا مل گیا‘ مسیحا نے پوچھا سوماریو کہیڑا حال ہے (کیا حال ہے) ‘ وہ بولا بھو ک کے ہاتھوں تنگ آ کر علاقہ چھوڑ رہا ہوں۔
مسیحا نے اسے کہا‘ علاقہ مت چھوڑو‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کہاں جائو گے؟ سوماریو انکار کرتا رہا‘ اسے کوئی منزل نظر نہیں آ رہی تھی‘ وہ بچوں کو دیکھ کر روتا جا رہا تھا‘ مسیحا نے اس کی ڈھارس بندھائی‘ اسے واپسی پر مجبور کیا ‘وہ گھر پہنچا تو دو مہینے کا راشن اس کی جھونپڑی کے باہر پڑا تھا‘ مسیحا نے کہا‘ سائیں ہم تمہاری زمین سیرا ب کریں گے‘ تم واڑی (کھیتی) لگائو ہم اس میں پانی کا انتظام کریں گے‘ ٹیوب ویل لگائیں گے‘ کنواں کھودیں گے‘ کنوئیں کے میٹھے پانی سے گوٹھ کے سارے لوگ اور جانور اپنی پیاس بجھائیں گے اور پانی سے تیری کھیتی سیراب ہو گی ‘ زمین کا مالک تو ہے‘ کھیتی لگے گی تو کھیت میں گندم ‘ سبزیاں اور جانوروں کے لیے جو چارہ پیدا ہو گا اس میں40 فیصد حصہ تیرا ہو گا اور باقی 60 فیصد تیرے گوٹھ کے لوگوں میں تقسیم ہو گا‘ سوماریو کو مسیحا کی باتیں اچھی اور بھلی لگ رہی تھیں مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
مسیحا نے اگلے دن مستریوں کو بھیج دیا‘ سوماریو کو یقین آگیا‘ اس نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واڑی (کھیتی) شروع کر دی‘ مسیحا کا نمائندہ بیج لے کر آ گیا‘ بورنگ شروع ہو گئی‘ پندرہ بیس دنوں مین بورنگ مکمل ہو گئی‘ پانی کا فوارہ امڈ آیا‘ سوماریو کے آٹھوں بچے بوند بوند کو ترسے ہوئے تھے ‘ وہ پانی دیکھ کر دیوانے ہو گئے‘ گوٹھ کے بچے بھی آ گئے ‘ خوشی کا سماں بن گیا‘ سوماریو کی پتنی تھال میں شکر ڈالے باہر آ گئی اور بچوں میں خوشی سے شکر تقسیم کی ‘ قربان نے دنوں میں ٹینکی بھی بنا دی‘ ٹینکی پر ٹونٹیاں لگ گئیں‘ صبح و شام پانی بھرنے والوں کا تانتا بندھ گیا‘ میٹھے پانی کے گھڑے گھروں میں جاتے تو سب سیراب ہو کر چسکیاں لے لے کر میٹھا پانی شربت کی طرح پیتے ‘ٹینکی سے گھڑے بھرنے کے دوران جو پانی گرتا وہ کھیتی کو سیراب کرتا‘ کھیتی سے آہستہ آہستہ ننھی منی کونپلیں پھوٹنے لگیں ‘ ہریالی ہونے لگی‘ سوماریو اور اس کی بیوی صبح سویرے کھیتوں کو دیکھتے تو خوش ہوتے۔
مسیحا نے ٹیوب ویل چلانے کے لیے سولر پینلز لگائے تھے‘ پانی پورے پریشر سے آتا تھا اور منٹوں میں کھیتی سیراب ہو جاتی تھی‘ وقت گزرتا گیا‘ سوماریو کی بنجر زمین آباد ہو گئی‘ دس ایکڑ میں گندم‘ سبزیوں اور چارے کی فصل تیار ہو گئی‘ کھیت کو دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ آنے لگے‘ سوماریو کو سب مبارکباد دیتے تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا‘ وہ بیوی کو کہتا تھا گندم کٹے گی تو وہ اپنے حصے کی گندم رکھ کر باقی شہر میں بیچ دے گا اور سب کے لیے نئے کپڑے لائے گا‘ بیوی خوش ہو جاتی‘ آخر وہ دن آن پہنچا‘ کھیت سے سبزیاں ‘ پیاز اور چارہ کاٹنے کا دن آ گیا‘ گندم بھی پک کر تیار ہو گئی‘ آج سوماریو کے گوٹھ میں میلے کا سماں تھا‘ مسیحا نے اپنا نمائندہ پشاور سے بھیجا ‘ گندم کی کٹائی شروع ہوئی‘ کھیت سے سو من سے زیادہ گندم نکلی‘ سوماریو نے اپنا حصہ رکھا اور باقی گوٹھ کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیا۔
سوماریو کا یہ مسیحا ڈاکٹر آصف محمود جاہ تھا‘ ڈاکٹر صاحب سرکاری ملازم ہیں‘ 1998 میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی بنائی‘ یہ اب تک 43 ڈسپنسریاں بنا چکی ہے‘ سوسائٹی نے اب تک تھر میں میٹھے پانی کے 740 کنوئیں بھی کھدوائے‘ میٹھے پانی کے ان کنوئوں سے روزانہ ہزاروں انسان اور جانور سیراب ہو رہے ہیں ‘ سوسائٹی نے اب تھر کے صحرا کو سر سبز بنانے کا عزم کیا ہے‘ سوماریو کے کھیت سے اس کا آغاز ہو گیا ‘ سوماریو کا کھیت کیا بنا تھر گرین فارمز کے لیے دور دراز سے فرمائشیں آنے لگیں‘ مخیر حضرات کو پتہ چلا تو انھوں نے عطیات بھیجنے شروع کر دیے‘ ماشاء اللہ تین چار ماہ کی مدت میں 50 گرین فارمز بن گئے‘ تھر کے لہلہاتے کھیت پنجاب کے کھیتوں کا منظر پیش کر رہے ہیں ‘ گندم بھی اگ رہی ہے‘ پیاز بھی‘ موسمی سبزیاں بھی اور جانورں کے لیے چارہ بھی‘ تھر میں جہاں پہلے ریت اڑتی تھی وہاں اب سبزہ اور گندم کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔
اللہ کے فضل سے اور مخیر حضرات کے تعاون سے تھر کی سو ایکڑ سے زیادہ بنجر اور بے آباد زمین آباد ہو چکی ہے‘ تھر کے جس علاقے میں گرین فارم بنا وہاں سے غربت اور بیماری کا خاتمہ ہو گیا‘ تھر میں گرین فارم تحریک زور پکڑ رہی ہے‘ لوگ اپنے طور پر کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت بنائے گئے کنوئوں کے ارد گرد کھیت بنا رہے ہیں‘ تھر کی زمین بنجر ضرور ہے مگر یہ اتنی طاقتور ہے کہ اسے جوں ہی پانی ملتا ہے یہ پھلنے پھولنے لگتی ہے‘ میری قارئین سے گزارش ہے آپ تھر کے صحرا کو سر سبز بنانے کے لیے سوسائٹی کا ساتھ دیں تا کہ وہاں سے بھوک‘ افلاس اور بیماری کا خاتمہ ہو سکے۔
آپ عطیات کے لیے ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے 0333-4242691 نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں‘ آپ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے اکائونٹ نمبر 4011311614 برانچ کوڈ 1887 نیشنل بینک آف پاکستان ‘مون مارکیٹ برانچ ‘ علامہ اقبال ٹائون ‘لاہور میں رقم بھی جمع کرا سکتے ہیں‘ 449‘ جہانزیب بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون لاہور پر خط بھی لکھ سکتے ہیں‘ asifmahmoodjah@gmail.com پر بذریعہ ای میل رابطہ کر سکتے ہیں‘ یہ خیر کا کام ہے‘ آپ اس میں شریک ہوں‘ آپ تین لاکھ روپے سے ایک گائوں کی حالت بدل سکتے ہیں‘ آپ مزید معلومات کے لیے 0300-9417290 پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
سندس فاؤنڈیشن دوسرا فلاحی ادارہ ہے ‘ یہ 21 سال سے تھیلیسیمیا‘ ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر کے مریض بچوں کا علاج کر رہا ہے ‘ سندس کی بنیاد رمضان المبارک میں رکھی گئی تھی‘ فاؤنڈیشن کا نام تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچی کے نام پر رکھا گیا تھا‘ محمد یا سین خان نے ادارے کی بنیاد رکھی اور منو بھائی (مرحوم) کو دورے کی دعوت دے دی‘ منو بھائی تھیلیسیمیا‘ ہیمو فیلیا کے مرض میں مبتلا بچوں سے ملے اور اپنی باقی زندگی تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا میں مبتلا بچوں کے لیے وقف کر دی‘ وہ آخری سانس تک سندس فاؤنڈیشن سے منسلک رہے اور آج بھی سندس فاؤنڈیشن کے میر کارواں ہیں ‘سند س فاؤنڈیشن کے 6 سینٹرز میں 6000 مریض بچے ہیں۔
یہ طبی ماہرین اور کوالیفائیڈ عملے کے ذریعے بچوں کو علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے‘ سینٹرز لاہور‘ گوجرانوالہ‘ گجرات‘ سیالکوٹ‘ فیصل آبا د اور اسلام آباد میں قائم ہیں‘ سندس فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا ‘ ہیمو فیلیا ‘بلڈ کینسر یا خون کے دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو صاف اور صحت مند خون کے ساتھ ساتھ ادویات بھی بلا معاوضہ فراہم کرتی ہے ‘ سرکاری اور نجی اسپتالوں کے مر یضوں کو بھی خون اور اجزائے خون بلا معاوضہ فراہم کیے جاتے ہیں۔
منو بھائی تھیلیسیمیا کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کے خواہش مند بھی تھے‘ اس مقصد کے لیے انھوں نے جدید آلات سے آراستہ ایک DNA LAB قائم کی اس منصوبے کو SUNMAC (Sundas Molecular Analysis Centre) کا نام دیا گیا‘ اس لیبارٹری کی بدولت سند س فاؤنڈیشن شادی سے قبل تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ بلا معاوضہ فراہم کر رہی ہے ‘سندس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام موروثی بیماریوں کی آگاہی کے لیے سیمینار بھی منعقد کے جاتے ہیں تا کہ معاشرے کو ان بیماریوں سے متعلق آگاہی بھی دی جائے اور آنے والی نسلوں کو بچایا بھی جا سکے‘ سندس فاؤنڈیشن کے مریض تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کر کے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں‘ مناسب علاج کی بدولت مریض معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں‘ یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ ملازمتوں پر بھی فائز ہیں اور کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔
سندس فاؤنڈیشن میں رجسٹرڈ درجنوں مریض بچوں کو تعلیمی میدان میں کا میا بی کی بنیاد پر گولڈ میڈلز اور سر ٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیا ‘گزشتہ سال سند س فاؤنڈیشن نے مخیر حضرات کے 20 کروڑ روپے زکوٰۃ و عطیات سے 80 ہزار سے زائد مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کیں‘ اس سال مریضوں کے لیے 25 کروڑ روپے چاہئیں‘ تمام مخیر حضرات سے درخواست ہے اپنی زکوٰۃ و عطیات سندس فاؤنڈیشن کو دیں‘ منو بھائی نے اپنی زندگی میں سندس فاؤنڈیشن کے لیے اسپتال کی جگہ خر ید لی تھی‘ ان کی دلی خواہش تھی ‘ عالمی معیار کا Purpose Built اسپتال بنایا جائے‘ آپ حضرات کے تعاون سے اس رمضان کے بعد اسپتال کی تعمیر شروع ہو جائے گی‘ مشینری اور تعمیر کا تخمینہ تقریباً 50 کروڑ روپے ہے ‘ مخیر حضرات تعمیر میں حصہ ڈال کر اپنے عزیز و اقارب کے لیے صدقہ جاریہ بھی کر سکتے ہیں اور اپنی کمپنی کے نام سے بھی منسوب کر سکتے ہیں ۔
سندس فاؤنڈیشن اپنے کام کا دائرہ کا ر کراچی ‘پشاور‘ کو ئٹہ‘ آزاد کشمیر ‘ گلگت اور بلوچستان تک بڑھانا چاہتی ہے‘ اس کے لیے بھی فنڈز کی ضرورت ہے ‘ آپ اپنی زکوٰۃ اور عطیات درج ذیل اکائونٹس میں جمع کراسکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے صدر سندس فائونڈیشن محمد یاسین خان سے موبائل نمبر 0333-4211261 اور 880 شادمان ون، نزد کریسنٹ گرلز اسکول لاہور پر بذریعہ خط بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے اور مزید معلومات کے لیے 04237422138 پر رابطہ کریں۔
اکائونٹ نمبر : 0974871811009130 ‘ برانچ کوڈ : 0776 مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ‘ شادمان برانچ ‘ لاہور۔
اکائونٹ نمبر: 00100122582530015‘ برانچ کوڈ: 0227 الائیڈ بینک لمیٹڈ‘ شادمان کالونی برانچ ‘ لاہور۔
میں دونوں اداروں کے ساتھ ذاتی طور پر وابستہ ہوں‘ یہ دونوں جینوئن ہیں‘ احباب سے تعاون کی درخواست ہے۔
The post خیر کے دو ادارے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2wv7GB0
via IFTTT
No comments:
Post a Comment