آج یقین نہیں آتا کہ کبھی وہ دن بھی ہوتے تھے جب 226 صفحوں کی کتاب 4 روپے میں مل جاتی تھی۔ ان ہی دنوں کی بات ہے میں نے واجد علی شاہ کی یادداشتیں خریدیں۔ مترجم تحسین سروری نے اسے تاجدار اودھ کے حرم سرا کی خود نوشت ، داستان حرم کا نام دیا۔ یہ کتاب جس کا نام ’’پری خانہ تھا‘‘ ان کی محبوبائوں کا قصہ تھا۔ کبھی ایک پر عاشق ہو رہے ہیں، کبھی دوسری پر، کبھی کوئی انھیں لبھا رہی ہے، کبھی وہ کسی کو رجھا رہے ہیں۔ نکاح، متعہ، طلاق۔ تم ہم سے روٹھے، ہم تم سے چھوٹے والا عالم تھا۔
یہ کتاب اس وقت شائع ہوئی جب برصغیر میں جنگ آزادی کا صد سالہ جشن منایا جا رہا تھا لیکن اس کتاب میں کہیں بھی اس طوفانِ بلاخیز کی آہٹ سنائی نہیں دیتی جو سلطنت اودھ اور لال قلعے کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکنے والا تھا۔ آزاد ہندوستان کا سورج غروب ہو رہا تھا اور فرنگی راج کے پھریرے لہرانے والے تھے۔ اس ابتر صورتحال کے باوجود مجال ہے کہ ’’پری خانہ‘‘ کے عاشق دلدار اوران کی محبوبائوں کو گمان بھی گزرا ہو کہ شاہی خاک میں مل رہی ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ ہرطرف ادبار کے بادل ہوں گے۔ اور اغیار ہندوستان کی اس دلربا اور دل نشیں سلطنت کو آن کی آن میں تہہ وبالا کردیں گے جس کی دولت و ثروت اور رعنائی و زیبائی کی مثالیں یورپ میں دی جاتی تھیں۔
اسی طرح کون اس بات پر اعتبار کرتا کہ وہ حسین ونازنین لڑکی جو خواص کے طور پر خریدی گئی تھی اور جس نے سلطنت اودھ کے اختر پیا کو اپنے حسن طرح دار سے مسحور کیا تھا، وہ اودھ کے عوام کی ہیروئن بن کر ابھرے گی۔ سبز لباس میں وہ ہمیں کسی بنائو سنگھار کے بغیر نظر آتی ہے۔ آنکھوں میں ذہانت کا کوندا ہے اور چہرے پر عزم کا لپکا۔ واجد علی شاہ 14 برس کی اس لڑکی سے پہلی ملاقات میں رقص دکھانے کی فرمائش کرتے ہیں تو وہ کہتی ہے۔ ’’ہم رقص نہیں کرتے، شعر کہتے ہیں‘‘۔ واجد پیا کو اس کی کٹیلی آنکھیں اور شعر کہنے کا انداز مار دیتا ہے لیکن اس کی شخصیت کی استقامت اور ذہانت کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یا شاید انھیں فرصت ہی نہیں ملتی کہ حسینوں کے ہجوم میں اس کے مزاج کی دلاوری اور آزادی کے لیے اس کی بے قراری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ماں باپ نے اسے واجد علی شاہ کے حرم میں ’خواص‘ (ملازمہ) کے طور پر فروخت کیا۔ وہاں سے اس کا وہ قصہ شروع ہوتا ہے جس نے ایک ’خواص‘ کو اودھی عوام کے دلوں کی ملکہ بنا دیا۔ شعر سنانے والی محمدی چند برس بعد نواب کی خواہش کے ترازو پر تُلی ’پری‘ کے عہدے پر فائز ہوئی، نواب کے بیٹے کی ماں بنی، پردے میں بٹھائی گئی۔ ’مہک پری‘ سے ’حضرت محل‘ کہلائی۔
ہم بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اس لیے کہ وہ ایک نامی گرامی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن کمپنی بہادر کے افسروں سے نذرانے لیتی تھیں، ان سے ساز باز کرتی تھیں۔ اس کے برعکس حضرت محل کے لیے ہمارے اندر ایک بے اعتنائی ہے۔ کیسے نہ ہو کہ وہ کنیز بازار میں بکی تھی، واجد علی شاہ کی محبوبہ اور پھر منکوحہ تھی، اس کی عزت اس لیے بالا ہوئی کہ وہ نواب کے بیٹے کی ماں ہوئی۔ اگر ہندوستانی مورخ نہ ہوتے تو وہ اودھ کے کسانوں کے سوا کسی کو یاد نہ رہتی۔ جھانسی کی رانی ، لکشمی بائی کی طرح وہ ہماری جنگ آزادی کی ایک اعلیٰ مرتبت ہیروئن ہے۔
واجد علی شاہ کمپنی بہادر سے وظیفہ لے کر مٹیا برج میں شعرو موسیقی کی محفلیں آراستہ کرتے رہے اور ان کے حرم میں ’’خواص‘‘ کے طور پر بکنے والی ’مہک پری‘ جسے انھوں نے بعد میں ’افتخار النسا‘ کہا اور اپنے بیٹے شہزادہ برجیس قدر کی ماں ہونے کے سبب اس کے درجات بلند کیے، وہی ’’خواص‘‘ انگریز بہادر سے لڑ مری۔ وہ جب ہاتھی پر بیٹھ کر میدان جنگ میں اترتی اور اپنے فوجیوں کا دل بڑھاتی تو اودھی کسان اور عوام اس کے گرد پروانہ وار لڑتے اور انگریز فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیتے۔
حضرت محل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ میدان جنگ میںبہترین حکمت عملی سے کام لیتی تھی۔ بہادر تھی اور اپنے باپ کے یہ جملے کبھی نہیں بھولی تھی کہ زندگی میں سب سے اہم چیز عزت نفس ہے۔ ہم امیر کبیر نہیں، خاندانی نہیں لیکن عزت نفس سب کی ہوتی ہے اور ہمیں ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ وہ کم عمری میں باپ کے سائے سے محروم ہوئی تھی لیکن اس کے یہ جملے اس نے گرہ سے باندھ لیے تھے اور ہمیشہ اپنی عزت نفس کی حفاظت کرتی رہی۔ خواہ یہ محل میں قدم رکھنے کے بعد سے ولی عہدبہادر کی ماں بننے تک یا نواب کے مٹیا برج چلے جانے کے بعد سے اودھ کی عزت نفس کے لیے جان پر کھیل جانے کا معاملہ ہو۔ حضرت محل نے اپنے دس برس کے بیٹے برجیس قدر کو اودھ کا نواب بنایا اور اس کی نائب کے طور پر میدان جنگ میں انگریز فوجوں اور محل کے اندر کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔
حضرت محل پر بہت کم لکھا گیا لیکن اب سے سات برس پہلے یہ کنیزے مراد تھیں جنہوں نے ’’سونے اور چاندی کے شہر میں‘‘ لکھ کر حضرت محل کا قرض ادا کیا۔ کنیزے مراد ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جو برصغیر کی تاریخ اور تہذیب سے پیوستہ ہیں۔ وہ ہندوستان کی ایک بہت چھوٹی سی ریاست کے راجا کی بیٹی ہیں۔ وہ بیٹی جس کی زندگی فرانس اور یورپ کے ملکوں میں گزری۔ فرانسیسی ان کی مادری زبان کی طرح ہے۔ تب ہی انھیں فرانس کا ایک بڑا ادبی انعام ان کی کتاب ’’ایک عثمانی شہزادی‘‘ پر ملا۔ یہ ان کی والدہ کی زندگی کا قصہ ہے۔ وہ ہندوستان کے مشہور فلم ساز مظفر علی کی بہن ہیں۔ یہ وہی مظفر علی ہیں جنہوں نے ’’امرائو جان‘‘ بنائی۔
کنیزے مراد کو ہندوستان سے، پاکستان سے، یہاں کے ان لوگوں سے محبت ہے جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کمپنی بہادرکی فوجوں سے وہ لڑائی لڑی جس میں وہ جیتنے کا کوئی گمان نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود لڑنا اور آزادی کے لیے جان دے دینا جن کا ایمان تھا۔ کیسے دلاور، کیسے ساونت تھے۔ شمالی ہند کے طول و عرض میں جنہوں نے سال دو سال تک کمپنی بہادر کی فوجوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور جب ملکہ وکٹوریہ نے معافی کا اعلان نامہ جاری کیا تو بہت سے ایسے تھے جنہوںنے اس معافی نامے کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔
بیگم حضرت محل بھی ان ہی میں سے تھی۔ وہ ایک آزاد ملک کی رہنے والی تھی، اس نے، اس کے ساتھیوں اور اس کی رعیت نے آزادی کے لیے جان دی تھی، کوئی سولی چڑھا تھا، کسی کو کالا پانی کی سزا ہوئی تھی۔ اور کچھ ایسے تھے جو توپ دم کیے گئے۔ کراچی ایک چھوٹا سا ساحلی شہر یہاں بھی بغاوت کرنے والے توپوں سے باندھ کر اڑائے گئے تھے اور جب وہاں شہیدوں کی یاد میں چراغ جلے، پھول چڑھائے جانے لگے تو اس جگہ ایک شاندار عمارت بنادی گئی اور اسے ایمپریس مارکیٹ کا نام دیا گیا۔
بارک پور، میرٹھ، دلی، لکھنو، کراچی، برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے یہ دیوانے آزادی کی پری کے اسیر تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی اس جنگ میں جیت کا چہرہ نہیں دیکھا لیکن انھوں نے آزادی کو پیٹھ نہیں دکھائی ۔ حضرت محل، لکشمی بائی، بخت خان، کنور سنگھ، امر سنگھ، تانیتا ٹوپے، احمد اللہ شاہ اور ان کے علاوہ ہزاروں گم نام سپاہیوں نے اپنے خون سے جو چراغ جلائے تھے، وہ بجھائے نہ جاسکے۔ جلیانوالہ باغ کا قتل عام، بھگت سنگھ ، رام پرشاد بسمل اور اشفاق اللہ خان تک ناموں کی کمی نہیں۔ ان کے کارناموں کی کمی نہیں۔ ان میں مسلمان، ہندو، سکھ سب ہی شامل تھے۔ شعر کہنے والی محمدی جو حضرت محل کہلائی اور جھانسی کی رانی لکشمی بائی جس کے لیے سبھدراکماری چوہان نے لکھا ’خوب لڑی مردانی، وہ تو جھانسی والی رانی تھی،۔ شہادت سے شہادت تک، خون کے چراغوں سے خون کے چراغوں تک۔ اورآج ہم کب آزاد ہیں۔ نامکمل آزادی کی تکمیل کے لیے لڑنے والوں، جان دینے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔
ترائی کے جنگلوں میں دیوانہ وار پھرنے والی حضرت محل جو کھٹمنڈو میں قید رہی۔ لیکن جس نے اودھ واپس جانے اور آرام و آسائش سے زندگی گزارنے کی ہر پیشکش ٹھکرا دی۔ عزت نفس کا اس نے سودا نہیں کیا۔ وہ خود دار کھٹمنڈو میں ایک امام باڑے کے حاشیے پر آرام کرتی ہے۔ ایک آزاد روح اور کیا کرتی؟ کبھی کھٹمنڈو جانا ہو تو اسے سلام گزاریے گا۔
The post کبھی کھٹمنڈو جانا ہو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Z1QPC0
via IFTTT
No comments:
Post a Comment