ایک طرف حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس لگاتی ہے۔ اس ٹیکس کی نسبت سے اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں۔ حکومت عوامی ٹیکس سے غیر پیداواری اخراجات اور پیداواری اخراجات کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ جوں جوں عوام پر غیر پیداواری اخراجات کا بوجھ بڑھتا توں توں مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔ جیسے جیسے پٹرولیم کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں کم کردیتا ہے۔
اس طرح سڈمڈ کے فائدے سامراجی ملکوں کو ہی ہوتے آئے ہیں۔ سڈمڈ لگا کر امریکا تجارتوں اور بجٹوں کو خساروں میں ڈالتا آرہا ہے۔ ان خساروں سے نکلنے کے لیے پھر مہنگے کاغذی ڈالر کے قرضے دیتا ہے۔اس طرح پاکستان بنتے وقت 1947 میں 3.308 روپے کا ایک کاغذی ڈالر تھا، ہر حکومت کے دور میں کاغذی ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور 1999 میں ڈالر 51.770 روپے کا ڈالر تھا اور 2008 میں 62.546 روپے کا ایک کاغذ ڈالر تھا۔
2008 سے 2013 تک 96.7272 روپے کا ایک کاغذی ڈالر تھا۔ 2013 سے 2017 تک 104.7519 روپے کا ایک کاغذی ڈالر تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت اگست 2019، 23 مئی 2019 تک 154.00 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔ نو ماہ کے عرصے میں اسد عمر وزیر خزانہ روپے کی قیمت میں 47 فیصد کرکے سامراجی بلاک کے لیے ملکی معیشت کو تباہ کردیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں مادر پدر آزاد ہوکر اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں آسمان پر لے آئیں۔ اس طرح اسد عمر نے چند ایکسپورٹرز کو کھلی اجازت دی کہ وہ ایکسپورٹ میں ڈالر ٹریڈنگ کرکے نفع ڈالر کمائیں۔
عمران خان نے کرکٹ میں نام کمایا۔ یاد رہے کہ اس کی سابقہ بیوی کے یہ الفاظ آج بھی میڈیا میں موجود ہیں۔ برطانوی سابقہ بیوی نے عمران سے کہا تھا کہ ’’عمران تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم کیوں سیاست میں داخل ہوئے۔‘‘ عمران خان نے کئی بار چین کا دورہ کیا اور کہا کہ چین سے سیکھیں گے۔ عمران خان تم نااہل تو ہو ہی لیکن عوام کے مجرم بھی ہو۔ کبھی چین، کبھی سعودی عرب کون سا ملک باقی چھوڑا؟ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود عوام کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ عمران خان تمہاری معاشی ماہرین کی ٹیمیں حقیقت میں عالمی واقعات اور عالمی مالیاتی جنگ کو سرے سے ہی نہیں جانتی کہ عالمی سطح پر برطانوی سامراج کیا کرتا رہا ہے اور امریکی سامراج نے کس طرح 1914 کے بعد یورپ کو مالیاتی غلامی میں جکڑا اور آج تک عالمی کرنسی وار کرکے کیسے معاشی غلام ملکوں کے عوام کا خون نچوڑ رہا ہے۔ 1951 سے آج سامراجی ایجنٹ عوام پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں۔
ان کو تو چین اور امریکا کی باہمی کرنسی وار کا علم ہی نہیں کہ امریکا نے سب سے پہلے چین پر دباؤ ڈالا تھا کہ چین اپنے ملک میں ڈالر ٹریڈنگ کو آزاد کردے۔ چین نے سختی سے منع کردیا، تین دہائیوں سے دونوں کی یہی لڑائی چل رہی تھی۔ امریکا نے چین سے آنے والی اشیاؤں پر ٹیکس بڑھادیا۔ جواب میں چین نے امریکی اشیا پر ٹیکس بڑھادیا۔ کچھ ہفتوں پہلے امریکا نے چینی اشیا پر 2 کھرب ڈالر کی ڈیوٹی لگا دی۔ اس پر چین نے امریکی اشیا پر 60 ارب ڈالر کا ٹیرف لگا دیا۔ امریکا نے 2018 تک 250 ارب ڈالر کا ٹیرف چینی اشیا پر لگایا۔ چین نے دسمبر 2018 تک 110 ارب ڈالر کا ٹیکس (ٹیرف) لگایا تھا۔ برطانوی سامراج غلام ملکوں سے براہ راست ٹیکس وصول کرتا تھا۔ امریکا معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرکے ’’ڈالر ٹیکس‘‘ وصول کر رہا ہے۔ ملکی غدار ایکسپورٹ بڑھانے کے نام پر روپے کی قیمت میں کمی کرکے ڈالر ٹریڈنگ پر اپنے ملک سے ڈالر نفع کما رہے ہیں۔
یہ چند لوگ وزیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور فارن ایکسچینج کمپنیاں کروڑوں روپے نفع ڈالر حاصل کرکے امیر تو ہوجاتے ہیں لیکن CDMED کا منفی Impact ملکی مجموعی معیشت پر دوسرے سال شدید گہرا ہوکر سامنے آتا ہے۔ (۱)۔ لاگتیں بڑھنے سے اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مقامی تیار ہونے والی اشیاء کے مقابلے میں بیرونی اشیا سستی ہوجانے پر معاشی غلام ملک میں امپورٹ آگے سے بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کی کرنسی روپے کی قیمت میں کاغذی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کمی سے بیرونی امپورٹ بتدریج بڑھتی گئی اور ملکی ایکسپورٹ مسلسل کم ہوتی گئی۔ دسمبر 2017 میں روپے کی قیمت 104.7248 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ اگست 2018 میں 105.3079روپے فی ڈالر تھا۔ 22 مئی 2019 کو 154.00 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔
اس عرصے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 48.69 روپے کردی گئی۔ تجارتی اعداد و شمار Statistical Bulletin July 2018 کے صفحہ 94 کے مطابق سال 2011-12 میں روپے کی قیمت 89.34 فی ڈالر تھی اور 2012-13 میں ڈالر کی قیمت 97.180 روپے تھی۔ سال 2012-13 میں تجارتی خسارہ 20 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھا۔ سال 2013-14 میں ڈالر کی قیمت 106.971 روپے تھی اور تجارتی خسارہ 19 ارب 82 کروڑ ڈالر تھا۔ سال 2014-15 میں ڈالر کی قیمت 100.823 روپے کردی گئی۔ اسی سال تجارتی خسارہ 22 ارب 16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔ سال 2015-16 میں تجارتی خسارہ 23 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھا۔ اسی سال ڈالر کی قیمت 104.65 روپے فی ڈالر تھی۔ سال 2016-17 میں ڈالر کی قیمت 104.724 روپے تھی۔ تجارتی خسارہ 32 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہوا تھا۔ سال 2017-18 میں ڈالر کی قیمت 108.69 روپے تھی۔ تجارتی خسارہ 37 ارب 48 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھا۔ 23 مئی 2019 کو ڈالر کی قیمت 154.00 روپے کردی گئی۔
اسی نسبت سے تجارت بھی سامنے آئے گی۔ 28 مئی 2019 اسلام آباد (اے پی پی) کے حوالے سے خبر آئی کہ جولائی تا اپریل تجارتی خسارے میں 12.8 فیصد کمی آئی ہے۔ اس کے پیچھے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بیرونی منڈی مقابلے میں ایکسپورٹرز نے کم سے کم ڈالر ریٹ پر زیادہ اشیا فروخت کرکے ان ڈالروں پر کم نفع باہر سے حاصل کیا اور ملک میں ڈالر ٹریڈنگ پر ڈالروں کا نفع روپے کی شکل میں اربوں، کروڑوں روپے حاصل کر لیے۔ ایک طرف حکومت عوام پر ٹیکس در ٹیکس آئے روز لگاتی جا رہی ہے تو دوسری طرف امریکی سامراج کے حکم پر ملکی و عوام کے غدار ’’ امریکی ڈالر ٹیکس ‘‘ عوام پر لگا رہے ہیں۔ اس طرح عوام پر دو طرفہ غیر پیداواری اخراجات کا بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔
اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو امریکی سامراجی پاکستان سے جو کہے گا وہ ملکی حکمران عمل کر دکھائیں گے۔ بہادر شاہ ظفر 62 سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا تھا۔ 1857 میں مسلم عوام کی جنگ آزادی 1857 میں شروع ہوئی۔ 1858 میں انگریز فوجیوں نے جنگ آزادی کو کچل دیا۔ بہادر شاہ ظفر اپنے تین بیٹوں ایک پوتے سمیت دہلی میں ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزیں ہوگیا۔ انگریزوں نے پانچوں کو گرفتار کرلیا۔ انگریز کیپٹن ہڈسن نے پوتے اور تینوں بیٹوں کی گردنیں کاٹ کر چاروں کے سر ٹرے میں سجا کر بہادر شاہ ظفر کو پیش کیے۔
انگریزوں نے آزادی کے متوالوں کو پھانسیاں دیں۔ توپوں سے باندھ کر اڑایا، کالے پانی کی سزائیں، جلیانوالہ باغ قتل عام اور کروڑوں آزادی پسندوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ 1610 سے لے کر اگست 1947 جنگ آزادی جاری رہی۔ غلام انڈیا میں غدار وطن بھی تھے پاکستان بننے کے بعد 16 اکتوبر 1951 سے ملکی غداروں نے ملک امریکی مالیاتی و معاشی غلامی میں دے دیا۔ آج پورے ملک کے عوام معاشی غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ امریکی درندگی کی داستانیں کرہ ارض کے چپے چپے پر موجود ہیں۔
The post کرنسی ڈی ویلیوایشن تھیوری (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2KrthTX
via IFTTT
No comments:
Post a Comment