عمران خان صاحب ! آپ کو پتا ہے کہ گھرکیسے چلتا ہے،اگرکرائے کا گھر ہے تو وہ 10 ہزار سے 60 ہزار تک کا ملتا ہے اور مالک مکان سے پوچھنے والا کوئی نہیں، اپنا گھر خریدنا تو خواب دیکھنے سے بھی دور ہے۔ جو فلیٹ 1990 میں 3 لاکھ کا ملتا تھا اب اس کی قیمت 90 لاکھ ہے۔
غریب اور مڈل کلاس کیسے اپنا گھر خریدنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ بجلی کا استعمال، سوئی گیس، پانی کی سپلائی، تین وقت کی روٹی، ٹرانسپورٹ کا کرایہ، سبزی میں پیاز، آلو، ٹماٹر تو ضرور خریدنے ہوتے ہیں، پتا ہے وہ کیا کلو ملتے ہیں؟ دودھ، گھی، شکر، پینے کا پانی، نہانے کپڑے دھونے کا صابن، صرف، برتن مانجھنے کا صابن، آٹا، چاول، انڈے، دہی، پاپے، ڈبل روٹی کے بھاؤکیا ہیں؟
چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا پھر مزدور اپنی فیملی کو پالنے کے لیے کیا پاپڑ بیلتا ہے۔گھر میں کم ازکم 6 افراد تو ہوتے ہیں ان کے خرچے کا اندازہ لگائیں۔گرمیوں اور سردیوں کے کپڑے لینے ہوتے ہیں ، نومولود بچے کا دودھ جسے ڈاکٹر لکھتا ہے بتائیں کتنے کا ہوتا ہے۔
اگرگھر میں بندہ بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کی فیس اور دوائیوں کا خرچہ، میڈیکل ٹیسٹ کتنے مہنگے ہوتے ہیں، کوئی آپ کو اندازہ ہے؟ ایک مزدور 500 کمانیوالا گھر کوکیسے چلائے گا، ایک چپڑاسی، کلرک یا پھر افسر کہاں سے گھر کا خرچہ پورا کرے گا۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ Only the wearer knows where boot pinches جس کے ساتھ بیتتی ہے اسے ہی معلوم ہوتا ہے۔ دوسری کہاوت ہے کہ Actions are Louder than words ۔ تم نے الفاظ سے حکومت میں آنے سے پہلے بہت کچھ کہا اب اس کا عمل کہاں ہے، اب کہتے ہو کہ عوام کو تکلیف برداشت کرنی پڑے گی جو چاروں طرف سے مسائل کے گھیرے میں ہے۔جناب بجٹ میں کوئی بھی ایسی امید نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔
پاکستان بننے کے بعد اب تک آنیوالے اقتداریوں نے کون سی ترقی کروائی ہے، جو لوگ کرپشن کر رہے تھے ملک کا قومی خزانہ لوٹا جا رہا تھا اس وقت وہ ادارے کہاں تھے، وہ افسران جنھیں بڑے بڑے عہدے دیے گئے، انھیں مراعاتیں دی گئیں جس میں انھیں اے سی گاڑیاں ، گھر، دفتر، فون، نوکر انھوں نے کیا کیا؟ وہ سوتے رہے انھیں سب کچھ ملتا رہا اور وہ خاموش رہے۔ اب وہ گہری نیند سے جاگے ہیں جب سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور صرف غریب عوام کے لیے باقی بڑے پیسے والے تو اب بھی عیش کر رہے ہیں۔ غریب کا بچہ تو دودھ کا گلاس پی نہیں سکتا، فروٹ کھانا تو اس کے تصور سے باہر ہے، ماں اور بچہ غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ اسپتالوں میں جاؤ تو پہلے کم ازکم 50 ہزار ایڈوانس جمع کرواؤ جو واپس نہیں ملتا جسے غیر ضروری خرچہ دکھا کر چھین لیا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں ہوتے اگر ہیں تو دوائیاں باہر سے خریدو، خریدے ہوئے Equipments چلانیوالے نہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں دیا ہوا بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے، اس کا حساب پوچھنے والا کوئی نہیں، اگر منسٹر یا پھر سیکریٹری صحت آتا ہے تو باقاعدہ پروگرام بناکر بھیجا جاتا ہے۔ ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک اور اسپتال چلاتے ہیں،ان کے اپنے اسپتال، لیبارٹریز ہیں اور وہ کسی نہ کسی سیاستدان کے زیر سایہ پلتے رہتے ہیں۔
حاملہ عورتوں کی ڈلیوری نارمل نہیں کی جاتی اور انھیں آپریشن کے لیے پرائیویٹ اسپتال بھیجا جاتا ہے جس میں اسے ڈاکٹرکی نشہ دینے والے ڈاکٹر کی، ٹیکنیشن کی فیس کے ساتھ، اسپتال اور کمرے کا کرایہ بھی دینا پڑتا ہے جس کے لیے لوگوں کو قرضہ بھاری ویاج پر لینا پڑتا ہے یا پھر اپنا کوئی سامان یا مویشی بیچنا پڑتا ہے۔اس بجٹ میں کھیلوں کے سامان پر ٹیکس لگایا گیا ہے جو بڑا افسوس ناک ہے کیونکہ ہمارے نوجوان پہلے ہی بڑے پریشان ہیں اور وہ خود کو کھیلوں میں مصروف رکھ کر دوسری چیزوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ راستے سے بھٹک نہ جائیں۔
اس ٹیکس کی وجہ سے ان سے کھیلوں کی دنیا بھی چھن جائے گی۔ ویسے بھی ان کے لیے کوئی کھیل کے میدان زیادہ نہیں ہیں اور وہ اپنا شوق گلیوں اور اجڑے ہوئے پارکوں میں جاکر پورا کرتے ہیں۔ یہ ٹیکس کا عمل قابل مذمت ہے۔ کاغذ پر سے ٹیکس کم کرکے اچھا کیا گیا ہے جس سے اخبارات اور جرائد کی دنیا کو فائدہ ملے گا کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اور کاغذ پر ٹیکس کی وجہ سے اخبارات اور رسائل کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور لوگوں نے اخبار خرید کر پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔اس اچھے عمل سے کتاب چھاپنے کا عمل بھی پھر سے بڑھ جائے گا اور قیمتوں میں کمی سے لوگ ایک بار پھر کتابیں خریدیں گے جس سے کتاب پڑھنے کا رجحان پھر بڑھ جائے گا۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کا کوٹری سے شکارپور اور جیکب آباد براستہ لاڑکانہ والا روٹ بالکل نظر اندازکیا ہوا ہے جس کی ترقی اور بحالی کے لیے کوئی رقم نہیں دی گئی ہے۔ کیا یہ پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟
اس کے علاوہ اس لائن کے جتنے ریلوے اسٹیشن ہیں، ان کی حالت بہت بری ہے اور لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کا جنکشن ختم کردیا گیا ہے، جب کہ پی آئی اے کی سروسز بھی بڑی محدود ہیں حالانکہ لاڑکانہ ایک بڑا تجارتی شہر ہے۔ یہ بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے تھا اور اس میں روزمرہ استعمال میں آنیوالی اشیا پر ٹیکس ختم کرنا تھا اور باقی جتنی لگژری چیزیں ہیں اگر ان پرکچھ ٹیکس لگایا جاتا تو عام آدمی پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ منرل واٹر پر ٹیکس بھی قابل افسوس ہے کیونکہ خاص طور پر کراچی میں پینے کا صاف پانی کہاں ہوتا ہے، لوگ پیسوں سے خرید کر پیتے ہیں۔
اگر معاشی حالت بہتر کرنی ہے تو صابن، چاول، آٹا، گھی، پٹرول، سی این جی، گوشت، چینی جیسی جتنی بھی اشیا ہیں انھیں بالکل ٹیکس فری ہونا چاہیے۔ ہاں بڑے پیسے والوں پر ٹیکس لگایا جائے جس میں ان کے بڑے گھر،گاڑیاں اور دوسری سہولیات ہیں جو غریب عوام کے پاس نہیں ہیں۔ سگریٹ پر جتنا ٹیکس لگایا جائے کم ہے کیونکہ اس کے پینے سے کینسر کے علاوہ اور بہت ساری پھیپھڑوں کی اور سانس کی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سگریٹ نوشی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اور جہاں بھی جاؤ 50 میں سے 40 لوگ سگریٹ پیتے ملیں گے۔ پرائم منسٹر، پریزیڈنٹ، چیف منسٹر، گورنرز، وزرا اور بڑے بیوروکریٹس کے اخراجات میں 50 فیصد سے زیادہ کمی کی جائے اور ان کے باہر ملکوں کے سرکاری دورے اور علاج کا خرچہ حکومت کی طرف سے بند ہونا چاہیے۔
عمران خان نے اس بارے میں اعلانات توکیے تھے لیکن اس پر پورا عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اب بھی عمرہ کرنا ہو یا پھر سرکاری وزٹ لوگ لے کے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پرائم منسٹرکو اکاؤنٹیبلٹی خود سے شروع کرنی چاہیے جو صرف شروع میں نظر آئی۔ اوپر ذکرکیے ہوئے منصب کے لوگوں کی پچھلی اور موجودہ پرفارمنس پر نظر رکھ کر ان کا حساب کرنا چاہیے ورنہ یہ کرپشن کا سلسلہ بند نہیں ہوگا۔ پیش کردہ بجٹ میں سینئر سٹیزن، ہینڈی کیپ، عورتوں ، بچوں ، سائنس اور ٹیکنالوجی، ٹورازم، وائلڈ لائف، ہسٹاریکل سائٹس، ادویات کی قیمتوں میں کمی کو نظراندازکیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت اہم ادارے ہیں جنھیں توجہ کی ضرورت ہے۔
The post وفاقی بجٹ، عوام کے حق میں نہیں (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2WTaFhh
via IFTTT
No comments:
Post a Comment