بالآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ، خدشہ یا امکان تھا۔ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی مسلسل دوسری مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرکے دوبارہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔
’’سیکولرازم‘‘ بری طرح سے ہار گیا اور ’’ہندوتوا‘‘ زبردست طریقے سے جیت گیا۔ کل 543 ارکان پر مشتمل بھارت کے ایوان زیریں ’’لوک سبھا‘‘ میں مودی کی سیاسی جماعت بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کرلیں جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہوا کہ انھیں حکومت سازی میں کسی اور کی مدد درکار نہیں۔ یاد رہے کہ حکومت بنانے کے لیے 272 ارکان پارلیمان کی حمایت درکار ہے۔ مودی کی اس فتح نے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے ان کے عزم کو مزید پختہ کردیا ہے۔ مسلمانوں سے تعصب اور پاکستان دشمنی مودی اور ان کی سیاسی جماعت بی جے پی کے منشورکے دو بنیادی نکات تھے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2014 کے انتخابات میں مودی نے بھارت کی جنتا سے معاشی انقلاب برپا کرنے کے جو بلند و بانگ وعدے کیے تھے وہ سب کے سب نقش برآب ثابت ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت کی بھوکی جنتا نے انھیں پہلے سے بھی زیادہ بھاری اکثریت سے کامیاب کرا دیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا بخار روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر قیادت بائیں بازوکا مورچہ بی جے پی کے ہاتھوں دندان شکن اور عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگیا ہے جب کہ ممتا بینرجی کی ’’ تری نامول ‘‘ کانگریس پارٹی کو بھی بی جے پی کے ہاتھوں اپنی کئی نشستوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔ ادھر بی جے پی کی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت کانگریس شرمناک شکست سے دوچار ہے کیونکہ اتر پردیش کے انتخابی حلقے امیٹھی میں جوکہ کانگریس کا گڑھ کہلاتا ہے اسے بری طرح منہ کی کھانی پڑی ہے۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب بھارت میں کانگریس کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اس کا اتنا برا حال ہوگا مگر ہر عروج کو زوال ہے۔ ہمیں آج سے ساٹھ سال پہلے کا وہ جلسہ یاد آ رہا ہے جس میں شام ڈھلے بھارت کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے آزاد ہندوستان کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل اور جانے مانے بزرگ سیاستدان سی۔راج گوپال آچاریا عرف راجا جی نے یہ تاریخی پیش گوئی کی تھی کہ جس طرح یہ سورج ڈھلتے ڈھلتے غروب ہونے والا ہے اسی طرح وہ دن بھی آئے گا جب کانگریس کا سورج غروب ہوجائے گا۔
مودی کا دوسری مرتبہ الیکشن جیت کر برسر اقتدار آنا مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے لیے ایک برا شگون ہے کیونکہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 373 کو ختم کردے گی جس کے تحت متنازعہ ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے بی جے پی کی حکومت حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں انتہا سے زیادہ اضافہ کردے گی۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھی یہ اندیشہ لاحق ہے کہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد مودی کے رویے میں مزید شدت اور سختی آئے گی جس سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ مودی پہلے ہی ’’جارحانہ دفاع‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں۔
مودی کا ریکارڈ یہی ہے کہ وہ مذاکرات کے بجائے مسائل کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی امن کی پیشکش کا مثبت جواب دیں گے؟ عام تاثر یہی ہے کہ شاید وہ ایسا نہ کریں کیونکہ مودی موذی ہیں! وہ واجپائی نہیں ہیں! تاہم اس کے باوجود بعض خوش فہم تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ دوسری مرتبہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بننے کے بعد مودی زیادہ خود اعتماد ہوجائیں گے اور اس بنا پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوجائیں گے۔ کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا؟ یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب روایتی جنگ کا زمانہ گزرچکا اور پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ایٹمی قوت بن چکے ہیں اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی جنگ اور اس کے تباہ کن نتائج کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا مودی اور بھارت کے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ دونوں تمام باہمی مسائل بشمول مسئلہ کشمیرکو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کریں۔
اگرچہ مودی بھارت اکثریت کے ساتھ عام انتخابات جیت کر دوبارہ برسر اقتدار ہیں تاہم ان کی یہ جیت پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے کیونکہ انھیں کئی سنگین چیلنج درپیش ہیں۔ بھارت کی جنتا کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں جن میں سرفہرست معیشت کی بہتری ہے۔ مودی جی نے اپنی پہلی کامیابی کے وقت بھارت کی جنتا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے اور روزگار کے کروڑوں مواقع پیدا کریں گے۔ ان کے انتخابی منشور میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ وہ کسانوں کی آمدنی کو دگنا کردیں گے اور دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر امدادی خدمات انجام دیں گے۔ بھارت کی جنتا سے ان کا ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ وہ انفرااسٹرکچر میں سدھار کرکے بھارت کو 2030 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت میں تبدیل کردیں گے۔ ان وعدوں کے علاوہ مودی نے انڈین ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی بھارت کی جنتا سے کیے گئے وعدوں پر کس حد تک عمل درآمد کرکے دکھاتے ہیں۔
بھارت کے عام انتخابات کے حوالے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی ابھر کر منظر عام پر آئی ہے کہ بھارتی پارلیمان کے نو منتخب ارکان میں 40 فیصد سے زائد کو مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔
Association of Democratic Reforms کے مطابق ان میں سے کچھ ارکان پارلیمان کے خلاف تو قتل اور ریپ جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہیں۔ ان میں بی جے پی کی بھوپال مدھیا پردیش سے نو منتخب لوک سبھا کی ممبر سادھوی پراگیا ٹھاکر سرفہرست ہیں جن کے خلاف ایک مسجد کے نزدیک 2008میں دہشت گردی کی ایک کارروائی میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کی سب سے بڑی حریف جماعت کانگریس کے ایک ممبر پارلیمان کے خلاف تو 204 مقدمات چل رہے ہیں جن میں قتل اور ڈکیتی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ ADR کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے 303 نو منتخب لوک سبھا کے ممبران میں سے 116 کو مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ ہے بھارت کی وہ جمہوریت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ہے۔
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
The post مودی کی واپسی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2EQIjOB
via IFTTT
No comments:
Post a Comment