Thursday, June 20, 2019

چیف جسٹس نے درد دل بیان کیا ایکسپریس اردو

بدھ کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ماڈل کورٹس کے ججزسے خطاب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب آصف سعید کھوسہ کاکہنا تھا کہ بدقسمتی سے کسی ادارے سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں، کہا جاتا ہے معیشت آئی سی یو میں ہے جو اچھی خبر نہیں، اگرچہ کون معیشت کی خرابی کا ذمے دار ہے یہ الگ بات ہے، ہم جمہوریت میں دیکھتے ہیں ٹی وی لگائیں تو پارلیمان میں شور شرابہ ہوتا ہے، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کسی کو بولنے نہیں دیا جاتا، ورلڈ کپ دیکھیں تو وہاں سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہیں، پڑوسی ملک افغانستان میں بھی جنگ چل رہی ہے، یہ تمام خبریں ہمیں مایوس کرتی ہیں تاہم ان حالات میں اچھی خبر صرف عدلیہ سے آ رہی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے در حقیقت ملکی نظام انصاف کے سیاق و سباق میں اپنا درد دل قوم کے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھ دیا ہے۔ ان کی معروضات قومی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہیں، انھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور یہ بھی زمینی سچ ہے کہ ملک میں انصاف کی زنجیر کی توقیر و تقدس کی قسمیں کھانے والوں نے سستے انصاف کی فراہمی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں برس ہا برس گزار دیے، خلق خدا کو جمہوری اور آمرانہ حکومتیں بھی انصاف کا منصفانہ اور عادلانہ اسلامی نظام دلانے میں کامیاب نہ ہو سکیں.

چیف جسٹس نے درست کہا کہ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 37D تحت فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی ذمے داری ہے تاہم ایسی غلطیاں جن کو ہم سب جانتے ہیں ٹھیک کرنے کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا، فوجداری مقدمات میں فیصلے نہ ہونے کے باعث ملزمان کئی سال جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، جیلوں میں موجود افراد کے بچوں اور اہل خانہ کا کوئی جرم نہیں ہوتا، گھر کا واحد کفیل جیل میں ہو تو اس کی زوجہ کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، کیا معاشرے نے کبھی ایسی خواتین اور بچوں کا سوچا ہے؟ چند ماہ خاندان والے ساتھ دیتے ہیں۔

اس کے بعد کوئی نہیں پوچھتا، بعض حالات میں خواتین کو لوگوں کے گھروں میں کام پر لگا دیا جاتا ہے یا جسم فروشی پر، گھروں میں کام کے دوران ایسی خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے، ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچے جرائم پیشہ بنتے ہیں، اسی سوچ کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ پہلے فوجداری مقدمات ختم کر کے معاشرے کو بہتر کیا جائے ۔

چیف جسٹس نے سیاسی اور سماجی منظر نامہ میں پھیلی ہوئی طوائف الملوکی اور مایوسی کی اندوہ ناک صورتحال کا بلیغ تقابل بھی ان لفظوں میں بیان کیا کہ اچھی خبریں صرف عدلیہ کی طرف سے آ رہی ہیں ، جب کہ اس فصیح انتباہ میں مضمر پیغام ارباب اختیار کے لیے بھی ہے کہ وہ مژگاں کھولیں، ظلم و ستم کے سسٹم پر نظر ثانی کریں، طرز حکمرانی کو انسان دوست بنائیں، نظام انصاف کی آفاق گیر مسلم شناخت، تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں، سیرت نبوی کو پیش نظر رکھیں، بے داغ قاضیوں اور خلفائے راشدین کے بے مثل اور قابل تقلید عدالتی معیار اور انصاف کے لازوال اصولوں کی طرف لوٹیں، انصاف سے محروم لوگوں کی مدد کریں جو نسل در نسل کورٹ کچہریوں میں خاک چھانتے ہوئے صرف عدل زنجیر ہلاتے ہی رہ گئے۔

یہ امر خوش آیند ہے عدلیہ کی طرف سے ماڈل کورٹس بناتے ہوئے التوا کو ختم کرنے کی ہر ایک صورت پر غور کیا گیا ، ماڈل کورٹس کا سادہ پلان بنایا اور جن بھی طریقوں سے کیس ملتوی ہوتے ہیں ان تمام پہلوؤں کا حل نکالا گیا اور پھر ماڈل کورٹس کے ججز کی محنت اور اللہ کی مہربانی سے بہت اچھے نتائج آئے، صرف48 دنوں میں 5ہزار سے زائد ٹرائل مکمل ہوئے، ہر ماہ ہر ضلع میں فوجداری مقدمات میں ایک جج کا اضافہ کریں گے اور پھر تمام سول کورٹس کو بھی ماڈل کورٹس بنائیں گے.

چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ 90 کی دہائی میں جسٹس افضل ظلہ نے قرار دیا تھاکہ اسلامی معاشرے میں جھوٹی گواہی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا آئین بھی کہتا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو اسلام کے اصولوں کے برخلاف ہو، اسی لیے ہم نے جھوٹی گواہی پر کام شروع کیا اور رواں سال اللہ نے مجھے فیصلہ لکھنے کی توفیق دی کہ جھوٹے شخص کی گواہی تسلیم نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے خوشخبری دی ہے کہ سپریم کورٹ دنیا کی پہلی عدالت ہے جس میں ای کورٹ سسٹم کے تحت مقدمات کو سنا گیا، جولائی کے اختتام تک کوئٹہ میں بھی ای کورٹ سسٹم کا آغاز ہو جائے گا، سپریم کورٹ میں اب ایک آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم بنایا جا رہا ہے۔

بلاشبہ مسند انصاف کی جانب سے ایسے اقدامات کو قوم کا بھرپور اعتماد حاصل ہو گا اور اس بات کی ہر پاکستانی توقع رکھ سکتا ہے کہ حکومت جس تبدیلی کا دعویٰ کرتی ہے کیا وہ انصاف کی فراہمی کے ساتھ سیاسی و معاشی استحکام اور جمہوری ثمرات اور روزمرہ کی حکومتی ریلیف کی یقینی ضمانت بھی دے گی؟ بہر حال اس امید سے پیوستہ رہنے کا سیاسی ماحول بھی سازگار ہونا ضروری ہے۔

The post چیف جسٹس نے درد دل بیان کیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2IvBLHB
via IFTTT

No comments:

Post a Comment