حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسلام آباد آزادی مارچ اور دھرنا کے حوالے سے ڈیڈ لاک ختم نہ ہوسکا۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفیٰ اور نئے انتخابات کے مطالبات مسترد کر دیے۔کور کمیٹی نے وزیراعظم کو گرفتار کرنے والے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کور کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا، ارکان کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کا کوئی بھی غیرآئینی مطالبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔ رہبر کمیٹی کے کنوینئر اکرم درانی نے کہا کہ رہبر کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین وزیراعظم کے استعفے اور فوج کی نگرانی کے بغیر نئے انتخابات کے مطالبے پر قائم ہیں،کوئی ماورائے آئین اقدام کیا گیا تو احتجاج کریں گے جو ملکی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے مگر ابھی تک دونوں فریق کوئی ایسا لائحہ عمل طے نہیں کر سکے جس سے سیاسی فضا میں پیدا ہونے والے تلاطم کا زور ٹوٹ سکے اور حالات بہتری کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دیں۔ان سطور کے لکھے جانے تک حالات جوں کے توں ہیں اور فریقین کی جانب سے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا۔
مولانا فضل الرحمن کی جانب سے شروع کیا گیا آزادی مارچ ابھی تک مکمل طور پر پرامن ہے اور حکومت بھی انھیں پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کسی قسم کی کارروائی سے گریز کر رہی ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے، معاملات کو پرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے تاہم ہر دو فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں ہی کسی بھی صورت میں حالات کے بگڑنے کا الزام دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے شرکاء سے دوسرے دن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حالات بگاڑنا نہیں چاہتے لیکن دو روز بعد حکومت کے خلاف سخت فیصلے کریں گے‘ 126دن کا دھرنا ہمارا آئیڈیل نہیں‘ ہماری تحریک بڑی ہے‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ آیندہ دنوں میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور اس حکومت کے خلاف تحریک کا تسلسل برقرار رہے۔
مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حکومت کہتی ہے مذاکرات کے راستے کھلے ہیں تاہم دوسری طرف کنٹینر لگا کر تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں‘ کس راستے سے مذاکرات کی بات کرو گے‘ تمام اپوزیشن جماعتیں استعفے کے مطالبے پر متفق ہیں۔ حکومتی ارکان کا موقف یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے شروع کیے گئے آزادی مارچ کے باعث مسئلہ کشمیر پر حکومت کی جانب سے شروع کی گئی مہم کمزور پڑ سکتی ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے اپنا موقف واضح اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر دوسرے ممالک آپ کا ساتھ نہیں دے رہے‘ کس منہ سے آپ کشمیر کی نمایندگی کی بات کرتے ہیں؟ کشمیر کے نمایندے آپ نہیں ہم ہیں۔
ادھر وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی موقف پر ڈٹے رہنے اور مولانا فضل الرحمن کے مطالبات کو رد کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا گیا کہ حکومت اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی‘ اپوزیشن سے معاہدے کی پاسداری پر ہر حال میں عمل کرایا جائے گا‘ وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہو گی‘ اگر اپوزیشن معاہدہ پر قائم نہیں رہتی تو انتظامیہ اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔
حکومت کی کوشش ہے کہ آزادی مارچ ڈی چوک تک نہ آئے لیکن ابھی تک اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آزادی مارچ کے قائدین آیندہ کے لائحہ عمل میں کیا فیصلہ کرتے ہیں تاہم مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ڈی چوک جانا ایک تجویز ہے۔
اخباری خبر کے مطابق آزادی مارچ کے آیندہ لائحہ عمل پر رہبر کمیٹی کے مشاورتی اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے شرکاء وزیراعظم ہاؤس یا ڈی چوک کی جانب مارچ پر متفق نہ ہو سکے‘ مارچ کو ریڈ زون کی جانب بڑھانے پر جے یو آئی کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا رہا‘ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بات چیت کے دروازے بند نہ کرنے کی تجویز بھی دی‘ ان دونوں جماعتوں کی یہ رائے تھی کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن احتجاج کیا جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی مارچ ڈی چوک کی جانب بڑھتا ہے یا اسی جگہ رہتے ہوئے پرامن احتجاج کرتا ہے اگر ڈی چوک کی جانب مارچ کیا گیا تو حالات خراب ہونے کا خدشہ خارج ازامکان نہیں کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ واضح کر چکے ہیں کہ آزادی مارچ کے شرکاء جہاں بیٹھے ہیں وہیں رہیں گے تو حکومت کوئی کارروائی نہیں کرے گی اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور باہمی افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کریں اور انھیں اس نہج پر نہ لے کر جائیں جس سے حالات بگڑ جائیں۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان کو کئی اندرونی اور بیرونی خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ مشرقی اور شمال مغربی دونوں سرحدوں پر حالات خوشگوار نہیں ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ روز بھی پاکستانی سفیر کو خوفزدہ کرنے کا واقعہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے افغانستان کی جانب سے پاکستان پر گولہ باری بھی کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کنٹرول لائن کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ادھر ایف ٹی ایف کا معاملہ بھی بدستور درد سر بنا ہوا ہے۔ اندرونی حالات کی طرف دیکھا جائے تو ملک میں معاشی جمود کی کیفیت ہے۔ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بیروز گاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کے اثرات گراس روٹ لیول پر نظر نہیں آ رہے۔
تاجروں کے ساتھ ٹیکس کے معاملے میں حکومتی محاذ آرائی ابھی چند دن پہلے ہی ختم ہوئی ہے‘ اب تین مہینے بعد یہ معاملہ کیا کروٹ لیتا ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے نچلے اور درمیانے طبقے کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ روز مرہ استعمال کی اشیا جن میں سبزیاں دالیں وغیرہ شامل ہیں‘ ان کے نرخ بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے کچن کے اخراجات میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد میں اجتماع اور ملک کی اپوزیشن کا اس کی حمایت کرنا نئی مشکل کا باعث بن رہا ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو درست کریں تاکہ وطن عزیز ترقی اور خوشحالی کی منزل کی جانب رواں دواں ہو سکے۔
The post افہام و تفہیم کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/339SF6m
via IFTTT
No comments:
Post a Comment