جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ چند خاندانوں نے عوام کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے اور پاکستان کی سیاست ان کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہے اور 22 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے والے ان عناصر نے ہی ہمیں ایک امت اور قوم بننے نہیں دیا۔
ایسی باتیں ماضی میں تحریک انصاف بنانے کے بعد عمران خان بھی کیا کرتے تھے اور انھوں نے سیاست میں ٹارگٹ شریف اور زرداری خاندان کو بنایا تھا اور عشروں اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر عمران خان کرپشن کے سنگین الزامات لگا کر اپنی سیاست آگے بڑھاتے رہے اور انھوں نے میڈیا کی مدد سے عوام کی بدحالی کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو قرار دے کر دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ حکمرانوں میں صرف وہی عوام کے ہمدرد ایک ایسے ایماندار سیاستدان ہیں جو ملک و قوم کے مسائل حل کرکے ان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔
عمران خان کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ وہ عوام کو غلام بنا کر رکھنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں نہ انھوں نے کرپشن کی ہے نہ وہ کوئی سیاسی میراث لے کر سیاست میں آئے ہیں۔
عمران خان اور سراج الحق اب تک اقتدار میں رہنے والوں کو ملک و قوم کے مسائل کا ذمے دار قرار دیتے آئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جن سابق حکمرانوں کو وہ کرپٹ قرار دیتے ہیں ان کی کرپشن سے کوئی انکار نہیں کرتا، صرف دونوں سابق حکمران پارٹیوں کے رہنما ہی اپنی قیادت کو کرپٹ نہیں مانتے اور دعوے کرتے ہیں کہ ان کی قیادت نے اگر کرپشن کی ہے تو وہ عدالتوں میں ثابت نہیں کی جاسکی تو ان کے کرپٹ نہ ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے اور کرپشن کے مقدمات میں ملوث ان سابق حکمرانوں کا بھی دعویٰ ہے کہ انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ان پر یہ الزامات سیاسی ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں۔
جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں 22 سرمایہ دار خاندانوں کا بڑا چرچہ تھا اور ان پر مختلف طریقوں سے دولت جمع کرنے کے الزامات لگائے جاتے تھے جن کی ملک بھر میں صنعتیں تھیں اور کہا جاتا تھا کہ انھوں نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اقتدار والے ان کی سنتے ہیں اور انھیں ہی اہمیت دیتے ہیں اور اسی لیے 22 خاندان ان حکومتوں کی حمایت کرکے انھیں مالی فائدہ پہنچاتے ہیں اور خود بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
سابق فوجی صدر ایوب خان کے بعد ان کے خاندان کو تو اقتدار نہیں ملا تھا مگر ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں پیپلز پارٹی بنائی تھی اور اپنے سابق باس پر الزامات لگا کر سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں چار سال بعد اقتدار میں آگئے تھے جن کی پھانسی کے بعد بھٹو خاندان نمایاں ہوا۔ بھٹو خاندان سے دو بار ان کی بیٹی اقتدار میں آئی اور ان کے بعد ان کے شوہر آصف زرداری کو اقتدار ملا اور اب ان کا صاحبزادہ بلاول زرداری بھٹو کہلا کر اقتدار کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔
میاں نواز شریف صنعتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ 1985 میں وزیر اعلیٰ پنجاب پھر تین بار ملک کے وزیر اعظم بنے اور ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے تین بار وزیر اعلیٰ بنے اور شریف خاندان کہلائے اور اب وہ اور ان کی بھتیجی مریم نواز حصول اقتدار کے لیے کوشش میں مصروف ہیں اور اس طرح شریف اور بھٹو ہی وہ خاندان ہیں جو باری باری اقتدار میں رہے جب کہ تیسرا کوئی خاندان نہیں جن کے لیے کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے عوام کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔
عمران خان اپنی پارٹی بنا کر 22 سال کی کوشش کے بعد اقتدار میں آئے اور ان کے تین سالوں میں ملک کے عوام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ اب ایسے غلام ہیں جن کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو بدحال کرنے میں ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ غریب اور امیر سب رو رہے ہیں۔ عوام اتنے بے بس ماضی میں کبھی نہیں رہے۔
مبینہ کرپٹ سابق حکمرانوں کے دور میں ملک میں پیسہ اور روزگار تھا مہنگائی کم تھی اور وہ ماضی میں اتنے غلام کبھی نہیں تھے جتنے آج ہیں اور ان کی زندگی اجیرن ہوچکی مگر موجودہ حکومت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
The post چند خاندانوں کے غلام عوام appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y3coqY
via IFTTT
No comments:
Post a Comment