ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ میونسپل یوٹیلیٹی ٹیکس کی وصولی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا قانونی حق ہے۔
مرتضیٰ وہاب اس لحاظ سے کراچی کے منفرد ایڈمنسٹریٹر ہیں جو سندھ حکومت کے ترجمانوں اور سندھ حکومت کے میئر قانون بھی ہیں جو کمشنر کراچی کے تابع یا ماتحت و محتاج نہیں ہیں۔ پہلے سرکاری ایڈمنسٹریٹر تو کیا کراچی بلدیہ عظمیٰ کے منتخب میئر بھی کمشنر کراچی کا ماتحت ہوتا ہے جس سے وہ وقت لے کر مل سکتا تھا اور کمشنر کراچی اسے جب چاہے طلب کرسکتا تھا۔
اب مرتضیٰ وہاب جب چاہیں کمشنر کراچی کو اپنے پاس طلب کرسکتے ہیں اور صرف وزیر اعلیٰ یا بلاول بھٹو کو جواب دہ ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ جب 13 سال پہلے سٹی حکومت کراچی تھی تو اس کے ایم کیو ایم کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے شہریوں پر میونسپل یوٹیلیٹی ٹیکس عائد کیا تھا جس کا باقاعدہ ایک ڈائریکٹوریٹ بنایا گیا تھا جو ہر ماہ بل بھیجا کرتا تھا مگر شہری اس بل کو قابل ادائیگی نہیں سمجھتے تھے اور بہت کم ہی ادا کرتے تھے۔
اس وقت کے سٹی ناظم اس طرح سٹی حکومت کی آمدنی بڑھا کر شہریوں کو بلدیاتی سہولیات فراہم کرنا چاہتے تھے۔ سٹی حکومت میں کراچی سیوریج اور واٹر بورڈ آج کی طرح علیحدہ خودمختار ادارہ نہیں تھا بلکہ سٹی حکومت کا حصہ اور سٹی ناظم کے ماتحت تھا اور کوئی یوسی چیئرمین ہی اس کا وائس چیئرمین تھا جو معاملات نمٹاتا تھا۔ اس وقت فراہمی و نکاسی آب کی شکایات کم تھیں اور جلد دور بھی کرا دی جاتی تھیں۔
سٹی حکومت کے خاتمے کے بعد واٹر بورڈ وزارت بلدیات کے ماتحت اور ایم ڈی کی سربراہی میں آگیا جو ہر ماہ شہریوں کو پانی کے بل بھیجتا ہے۔ جو شہری واٹر بورڈ کے پانی سے محروم ہیں وہ بھی پانی کا بل ادا کرتے ہیں کیونکہ سیوریج ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے۔کے ڈبلیو ایس بی ہزاروں گھروں کو پانی فراہم نہیں کرتا مگر ہر شہری سے اپنے ماہانہ بل وصول کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سٹی حکومت میں ہر یوسی ناظم صفائی و روشنی کے علاوہ فراہمی و نکاسی آب کے معاملات بھی دیکھتا تھا جس سے شہریوں کے مسائل باآسانی حل ہو جاتے تھے۔
سٹی حکومت کے پہلے دور میں بہت سی یونین کونسلروں نے گھر گھر کچرا اٹھا کر مقررہ مقام تک پہنچانے کا انتظام کیا تھا جس کا ماہانہ ایک سو روپے مقرر تھا جو شہری بخوشی ادا کردیتے تھے۔ اس وقت شہر میں کچرا دان بھی قائم تھے جو یوسی کو رقم نہیں دے سکتا تھا وہ اپنا کچرا وہاں ڈال دیتا تھا جو باقاعدگی سے اٹھایا بھی جایا کرتا تھا مگر اب نہیں اٹھ رہا۔
سٹی حکومتوں کے بااختیار نظام سے ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوگئی تھی اسی لیے وہ ضلعی حکومتوں کے خلاف تھے اور جنرل مشرف کا دیا گیا یہ بااختیار نظام 2008 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ختم کرکے جنرل ضیاء کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا جس کے تحت سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات سیاسی حکومتوں نے مجبوراً کرائے تھے مگر منتخب بلدیاتی نمایندوں کو برائے نام اختیارات دیے تھے اور تمام اختیارات وزیر اعلیٰ اور وزیر بلدیات کے پاس تھے جن کے دفاتر سے لاکھوں روپے رشوت لے کر بلدیاتی اداروں میں نئی تقرریاں اور تبادلے ہوتے تھے۔
سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں سے فراہمی و نکاسی آب کے معاملات کے بعد صفائی اور کچرا اٹھانے تک کا اختیار واپس لے لیا تھا اور اس کام کے لیے بھی ایک نیا ادارہ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ سرکاری طور پر بنایا گیا تھا اور بلدیاتی عمل صفائی اس کے حوالے کردیا تھا جس کے بعد صفائی کے معاملات میں بہتری کے بجائے بدتری آئی اور شہروں میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے اور کراچی دنیا بھر میں کچرے کے ڈھیروں کے نام سے بدنام ہو گیا جس سے شہری مسلسل پریشان ہیں۔
کراچی کے شہری واٹر بورڈ کے سرکاری بل ادا کرتے ہیں اور اپنے گھروں کا کچرا یونین کمیٹیوں کے مقررہ ٹھیکیداروں کو ہر ماہ دو سے تین سو روپے ادا کرکے اٹھواتے ہیں۔ شہر میں بلدیاتی اداروں کے کچرے دانوں کا کہیں وجود نہیں۔ شہر میں اسٹریٹ لائٹس برائے نام صرف اہم سڑکوں پر رہ گئی ہیں۔ گلیوں میں تاریکی چھائی رہتی ہے لوگ اپنے گھروں کے پاس اپنے میٹر سے بلب لگا کر روشنی کرتے ہیں۔ سالوں سے گلی محلوں کی سڑکیں تباہ ہو چکیں ہر جگہ گڑھے جن سے پیدل چلنا بھی محال ہے۔ شہری جو کام اپنے پیسے سے کر رہے ہیں یہ بلدیاتی اداروں کے کرنے کے کام ہیں۔
بلدیاتی ادارے تجاوزات قائم کراتے ہیں جن سے افسر رشوت لیتے ہیں، بلدیاتی اداروں میں جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ شہری جب تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیے گئے ہیں تو کے ایم سی کس طرح میونسپل ٹیکس وصولی کی قانونی حق دار ہو سکتی ہے۔ سابق ادوار میں اپنے سیاسی کارکن کے ایم سی میں بھرتی کیے گئے جن کی تنخواہیں بوجھ مگر سزا عوام کیوں بھگتیں؟
The post میونسپل ٹیکس قانونی حق کیسے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3kR0Lfv
via IFTTT
No comments:
Post a Comment