ملک راحت محمود المعروف ’راحت ملک‘ 17 جولائی 1958ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، ان دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان اور پروگریسو انٹیلیکچول فورم پاکستان کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔
انہیں سیاست میں دل چسپی اور حصہ داری ورثے میں ملی، ان کے دادا ملک خورشید عالم کی سید عطا اﷲ شاہ بخاری سے قربت رہی۔ وہ کہتے ہیں دسویں جماعت میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے اسکول سے نالائق قرار دے کر نکال دیا کہ میں فیل ہو جاؤں گا جس کے اسکول پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پنجاب بورڈسے 1974ء میں میٹرک کیا، اس زمانے کی ختم نبوت کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ 1974-75 کے دوران ہمارا خاندان کوئٹہ منتقل ہوگیا۔ مجھے شعر وادب کی طرف رغبت سالک صدیقی کے اس شعر سے ہوئی؎
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں
راحت ملک کے بقول یہ شعر ذہن میں جم گیا، اسی شعر کی وجہ سے سب سے پہلے سالک صدیقی کی کتاب خریدی، اس کی خریداری کے دوران ہینڈ بک ’’ماؤ‘‘ کسی نے میرے ہاتھ میں تھما دی، ان دنوں پابندی تھی، بتایا گیا تھا کہ جس کے ہاتھ میں یہ کتاب ہوگی، اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ بہرحال یہ خوف اور تجسس کا مرحلہ تھا، کوئٹہ پہنچنے کے بعد علمی کتب سے رشتہ جڑا۔ پرائیویٹ بی اے کرنے کے بعد مختلف تربیتی تعلیمی پروگراموں میں حصہ لیا، یہی وہ دن تھے جب ’نیشنل عوامی پارٹی‘ (نیپ) کے خلاف ذوالفقار بھٹو کا آپریشن چل رہا تھا۔
ماحول سے متاثر ہو کر میں نے سیاسی تقاریب میں شرکت شروع کی، جسے سے بہت کچھ سیکھا۔ 1975ء میں جب ’نیپ‘ کو کالعدم قرار دیا گیا، تو میں اس کا غیر رسمی رکن بن گیا۔ 1976ء میں باقاعدہ رکنیت ملی، تب سے اب تک نیپ کے سیاسی مکتبہ فکر سے وابستگی پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ جب حیدر آباد ٹریبونل کا خاتمہ ہوا تو بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے ’پاکستان نیشنل پارٹی‘ بحال کرنے کا اعلان کر دیا، میں بھی پی این پی کا حصہ بن گیا۔ تنظیمی علیحدگی کے بعد پہلا کنونشن ملتان میں قصور گردیزی کے گھر پر ہوا سردار عطا اﷲ مینگل نے بھی اس کنونشن میں فعال کردار ادا کیا، کنونشن میں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو صدر اور قصور گردیزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اس کے کچھ عرصے بعد سردار عطا اﷲ مینگل ’پی این پی‘ سے علیحدہ ہو کر واپس لندن چلے گئے۔
اس عرصے میں مجھے بابائے بلوچستان کے قریب آنے کا موقع ملا اور میری غیر متزلزل سیاسی سمت متعین ہوئی۔ کتاب سے تو رشتہ جڑ چکا تھا، پھر میں نے اقبالؒ کا مطالعہ کیا، مختلف لائبریریوں کی خاک چھانی، معاشی تنگ دستی کے سبب کباڑیے کی دُکان سے کتابیں خریدیں، 1979ء میں لاہور سے کاظم شاہ کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ’’تذکرہ‘‘ کے ساتھ بطور نمائندہ کام کیا، جس سے لکھنے لکھانے کا تجربہ ہوگیا۔ چھے ماہ بعد اس پر پابندی لگ گئی۔ 1979ء میں مجھے احمد خان لوحانی ’مشرق‘ اخبار لے گئے، یہاں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ’سٹی‘ و ادارتی صفحات پر کام شروع کیا، فیچر اور مضامین بھی تحریر کیے۔ شاعری بھی کی، لیکن جلد احساس ہو گیا کہ شاعری میرے لیے ممکن نہیں، اس لیے میں نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔
راحت ملک کہتے ہیں کہ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں صعوبتیں برداشت کیں، جن کا ذکر مناسب نہیں، تاہم یہ عرصہ بہت کٹھن اور دشوار تھا۔ ’پاکستان نیشنل پارٹی‘ کوئٹہ کا جنرل سیکرٹری بننے کے بعد میری سرگرمیوں کا زیادہ محوور عملی سیاست بن گیا اور ادب سے رشتہ کچھ کم زور پڑا، لیکن تحریر و قلم کے ساتھ وابستگی برقرار رہی۔ مجھے ’پی این پی‘ کی دستاویزات، فائلیں اور منشور تحریر کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ 1988ء میں مجھے ’پی این پی‘ کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ یہ عرصہ میری عملی سیاست زندگی کا سب سے فعال اور سنہری دور تھا، پھر بلوچستان کی سیاست میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ’پی این پی‘ اور سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں متحرک ’بی این ایم‘ کے انضمام کا مرحلہ طے ہوا، تاہم مذاکراتی کمیٹی میں ’پی این پی‘ کی طر ف سے میں، رازق بگٹی، احدآغا اور طاہر بزنجو ’بی این ایم‘ سے بات کر رہے تھے، جس میں تعطل آ گیا، رازق بگٹی اور میں مذاکراتی کمیٹی سے الگ ہو گئے۔
ہم نے دیکھا کہ ’پی این پی‘کی قیادت بہرصورت انضمام چاہتی تھی چنانچہ انضمام سے اختلاف رکھنے والے بائیکاٹ کر گئے، اس دھڑے کی قیادت یوسف مستی خان کررہے تھے پنجاب، سندھ اور دوسرے صوبوں کے بڑی تعداد میں کونسلرز ہمارے ساتھ تھے اور ہم نے ’پی این پی‘کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہم صرف پارٹی کا نام چلارہے تھے، پارٹی اپنا تنظیمی وجود کھو چکی تھی۔ اس دوران اجمل خٹک کے اے این پی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے اور انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد اجمل خٹک نے ملک بھر میں بکھرے ہوئے ’نیپ‘ کے دوستوں کو اکٹھا کرنے کا آغاز اور ہم سب سے رابطہ کیا ہم سب نے اجمل خٹک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور تجویز پیش کی کہ نئی پارٹی بنانے کے بہ جائے ’نیپ‘ کو بحال کریں، چناں چہ’نیپ‘ کی بحالی کے بعد پشاور کے پہلے کنونشن میں مجھے بلا مقابلہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔
راحت ملک کہتے ہیں کہ 2000ء میں مجھے پاک انڈیا ڈیموکریسی فار پیس میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا بھارت جانے کا متعدد بار اتفاق ہوا ہے اور وہاں کی اہم سیاسی علمی و ادبی امن پسند لوگوں اور شخصیات سے ملاقات بھی ہوئی، اُن کی تفصیل میری کتاب’’بھارت کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ میں موجود ہے۔ پھر مختلف اخبار وجرائد ہزاروں کی تعداد میں سیاسی، سماجی، صوبائی، ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل و واقعات پر میرے مضامین شائع ہو چکے ہیں، جن کا انتخاب ’انہدام‘ نامی کتاب کی صورت میں 2008ء میں منظر عام پر آیا۔
راحت ملک کے بقول پھر انہوں نے ’فکر و عمل‘ نامی تنظیم قائم کی، جس نے ادبی تقاریب کا انعقاد کیا، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ادب کے حوالے سے تین کتابیں چھپ چکی ہیں، کچھ اشاعتی مراحل میں ہیں۔ بلوچستان کے حالات سے راحت ملک بھی متاثر ہوئے، کہتے ہیںکہ 2009ء میں مجھے کوئٹہ سے لاہور جانا پڑگیا، کیوں کہ مجھ پر حملے کیے گئے، جس میں میرے ملازم شہید ہوئے۔ 2009ء تا 2013ء راولپنڈی اور لاہور میں ہجرت کے ایام بسر کیے۔ لاہور میں قیام کے دوران ماہنامہ صدائے جمہور کی ادارت کی ذمہ داری نبھائی۔
راحت ملک نے بتایا کہ 2008ء کی بات ہے کہ نیشنل پارٹی کا کنونشن کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں مجھے مرکزی سیکرٹری ریسرچ اور ایڈوکسی منتخب کیا گیا عہدے کے لحاظ سے میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن بھی رہا، لاہور اور راولپنڈی میں قیام کے دوران وہاں پارٹی کے لیے قلمی اور عملی جدوجہد میں شریک رہا دونوں شہروں اورکانفرنسوں میں بلوچستان کے بحران، اسباب، تاریخ، کارروائیوں اور ان کے نتائج کے ساتھ ساتھ سیاسی تجاویز بھی پیش کیں۔
راحت ملک بتاتے ہیں کہ فرزند بلوچستان ہونے کے ناتے بلوچستان کا مقدمہ پیش کیا۔ اسلام آباد کے ایک سیمینار میں مجھے اسپیکر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا، یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ان سیمینارز میں بلوچستان کے سوال کو ببانگ دہل اٹھایا گیا۔
راحت ملک اعتراف کرتے ہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کے سبب بچوں کو بھرپور وقت نہیں دے پائے، جس کا انہیں رنج ہے کہتے ہیں کہ اس کے باوجود میرے بچوں کی شعوری بالیدگی موجود ہے، میری چاروں بیٹیوں اور ایک بیٹے میں کسی سے بھی بات کرلیں، منطقی استقلال نمایاں پائیں گے۔ اُنہوں نے ایران، افغانستان کے دورے بھی کیے، انہوں نے دسمبر 2006 سے 2008ء تک میگزین بھی نکالا، جس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میگزین کے پہلے شمارے کے لیے احمد فراز نے خصوصی طور پر نظم بھجوائی جو وکلا تحریک کے تناظر میں ملکی سیاسی مافیا کا بیان تھی اور یہ نظم ان کے کسی دوسرے مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ شریک حیات کے حوالے سے راحت ملک نے بتایا کہ وہ مذہبی مبلغہ ہیں بلوچستان اور راول پنڈی میں تفہیم القرآن اکیڈمی کے ذریعے تعلیم دے رہی ہیں۔
The post مجھے اسکول سے نکال دیا گیا کہ فیل ہوا تو اسکول پر اثر پڑے گا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2wKf77L
via IFTTT
No comments:
Post a Comment