افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغان امور زلمے خلیل زاد اتوار کے روز پاکستان پہنچے تو دفتر وزارت خارجہ میں وفود کی سطح پر پاک امریکا دوطرفہ مشاورتی اجلاس ہوا۔ مذاکرات میں دوطرفہ تعلقات‘ خطے میں امن و امان کی صورتحال‘ افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان نے خطے میں قیام امن کے لیے افغان مسئلے کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ دہائیوں سے جاری محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں، پاکستان خطے میں قیام امن کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔
مسئلہ افغانستان انتہائی پیچیدہ اور گمبھیر صورت حال اختیار کر چکا ہے، اس کے حل کے لیے ایک طریل عرصے سے کوششیں جاری ہیں مگر ابھی تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے پاکستان‘ چین‘ روس اور امریکا متعدد بار بات چیت کر چکے ہیں اور ہر بار یہ اجلاس بے نتیجہ ثابت ہوئے۔
پاکستان افغان مسئلے کے پرامن حل کے لیے سہولت کار کا بہترین کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی بھی یہ خواہش ہے کہ یہ مسئلہ جلد از جلد اپنے اختتام کو پہنچے کیونکہ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ افغانستان میں ریاستی رٹ بھی کافی کمزور ہے‘ افغان جنگجو ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں اور وہ کابل حکومت اور امریکا کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں۔
طالبان کا ایک دفتر قطر میں موجود ہے جہاں امریکا اور طالبان کے درمیان متعدد بار مذاکرات کا دور چل چکا ہے لیکن کوئی فریق بھی ایک دوسرے کی شرائط تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ امریکا یہ چاہتا ہے کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں اور موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرکے اس کے طے کردہ فارمولے کے مطابق حکومت میں اتحادی کے طور پر اپنا کردار ادا کریں لیکن طالبان کو امریکا کی یہ شرائط قطعی طور پر قبول نہیں۔
افغان طالبان یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکا کابل سے نکلنے کا ٹائم فریم دے۔ امریکا کو یہ خدشہ ہے اگر وہ افغانستان کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو جہاں طالبان ایک بار پھر کابل پر قابض ہو جائیں گے وہاں عالمی سطح پر کابل پر امریکا کی مہم جوئی اور اپنے مقصد میں ناکامی پر بہت سے سوالات اٹھائے جائیں گے اور امریکی انخلاء کو اس کی شکست تسلیم کیا جائے گا۔
بعض ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد کی جانب سے گزشتہ دوروں کے مقابلے میں سرد مہری کا رویہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو افغان مذاکرات میں کامیابی کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ حقیقت حال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو بخوبی ادراک ہے کہ امریکا طالبان کی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور دوسری جانب طالبان بھی امریکی شرائط کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر دونوں فریقین کی جانب سے مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اور کس طرح ان مشکل حالات سے نکلا جا سکتا ہے۔
چند روز پیشتر افغانستان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کے حوالے سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ اس وقت تک لڑائی جاری رکھیں گے جب تک ان کے اہداف پورے نہیں ہو جاتے‘ ان کا کہنا تھا کہ مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ غیرملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں۔ اس وقت افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد 20ہزار ہے جن کا طالبان انخلا چاہتے ہیں۔
امریکا طالبان کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکنہ وسائل بروئے کار لایا‘ جدید ترین ہتھیاروں کے علاوہ اس نے ڈیزی کٹر جیسے خوفناک بموں کا بھی بے دریغ استعمال کیا‘ ڈرون حملوں میں متعدد طالبان اور القاعدہ کے رہنما ہلاک ہو گئے جس سے ان کی قوت کو کافی نقصان پہنچا مگر اس سب کے باوجود طالبان جنگجو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود امریکا کے خلاف گوریلا وار جاری رکھی۔
اب امریکا افغانستان سے باعزت واپسی چاہتا ہے تو اسے طالبان جنگجوؤں کی شرائط پر نظرثانی کرنا ہو گی‘ اگر دونوں فریقین یونہی مذاکرات مذاکرات کا کھیل کھیلتے رہے تو بات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے گی۔ افغان مسئلے کے حل کے لیے پاکستان نے بالکل صائب مشورہ دیا ہے کہ محاذ آرائی کے بجائے اس کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔
The post افغان مسئلہ: محاذ آرائی نہیں سیاسی حل تلاش کریں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Km9NiI
via IFTTT
No comments:
Post a Comment