شاید بلکہ نہیں یقیناً11 فروری کی بات تھی جب مجھے پی سی بی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا کہ 2 دن بعد ہائی پرفارمنس سینٹر میں کوویڈ ٹیسٹ کیلیے آ جائیں، میڈیا ایکریڈیشن کارڈ اسی سے مشروط ہے، میں کسی وجہ سے نہ جا سکا تو بعد میں کہا گیا کہ آپ ٹیسٹ کرا لیں اور کارڈ لے لیں،مجھے ٹیسٹ کرانے میں کوئی اعتراض نہ تھا مگر منطق سمجھ نہ آئی، آپ نے 13 فروری کو صحافیوں کے کوویڈ ٹیسٹ کرا لیے، وہ ایک ہفتے تک گھر اور دفتر کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی جاتے رہے، سیکڑوں لوگوں سے ملاقات بھی کی ہو گی۔
اس کے بعد 20 تاریخ کو پہلا میچ کوور کرنے کیلیے نیشنل اسٹیڈیم آئے، کیا گارنٹی تھی کہ اس دوران خدانخواستہ کوئی وائرس کا شکار نہ ہوا ہو گا، یا تو آپ میڈیا کیلیے بھی کسی ہوٹل میں ایک بائیو ببل بناتے جو ظاہر سی بات ہے ممکن نہ ہوتا، 2 دن پہلے بھی ٹیسٹ کراتے تو تھوڑی بات سمجھ آتی، بہرحال یہ لاجک میرے سر سے گذر گئی،پھرمصروفیات کی وجہ سے ٹیسٹ میں تاخیر ہونے لگی تو میں نے سوچا اس بار ایک صحافی نہیں عام شائق کی حیثیت سے ہی کچھ میچز دیکھتا ہوں،کوریج تو کسی بھی اسٹینڈ سے ہو سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے ہی میچ میں مین گیٹ سے اندر جاتے ہی پی سی بی آفیشلز اور کئی صحافیوں سے ملاقات ہوگئی تھی،سگریٹ کے کش لگاتے بعض کمنٹیٹرز بھی نظر آئے، خیر بات اتوار کی ہو رہی تھی،ہر بار نیشنل اسٹیڈیم اور اطراف کی سڑکیں میچز کے دوران مکمل بند کر دی جاتی ہیں جس سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس بار صورتحال نسبتاً بہتر لیکن پھر بھی لوگوں کوپریشانی تو ہو ہی رہی ہے،اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے،خیر ابھی اسٹیڈیم کے باہر اطراف کی کچھ سڑکیں کھلی ہیں۔
مین گیٹ سے اندر داخل ہونے سے قبل گاڑیوں کی تلاشی کے بعد اندر شناختی کارڈ چیک کیے جاتے اور خواتین کو تلاشی دینا پڑتی، اتوار کو ایک فیملی کو ایسا ہی کرنے کو کہا گیا مگر پھر پولیس اہلکاروں نے جب بعض گاڑیوں کو ایسے ہی جانے دیا تو اس پر ایک صاحب الجھ پڑے کہ ہمارے شناختی کارڈ چیک کیے، فیملی کی تلاشی ہوئی تو ان لوگوں کوکیسے جانے دیا؟خیر مرکزی دروازے کے باہر ایک بار پھر شناختی کارڈ چیک ہوا اور اندر داخل ہونے کے بعد سامان کی بھی تلاشی لی گئی،وہاں کراچی کنگز کو سپورٹ کرنے کیلیے ہمایوں سعید و دیگر فنکار بھی موجود تھے۔
لوگ انھیں دیکھ کر سیلفیز بنواتے رہے،اندر کا ماحول زبردست تھا، کراچی اور لاہور کی ٹیمیں روایتی حریف سمجھی جاتی ہیں، اس لیے باہمی مقابلوں میں شائقین کا جوش و خروش عروج پر پہنچا ہوا تھا،میں نے کئی ممالک میں میچز کوور کیے اور یہ دیکھا کہ اسٹیڈیم میں ہی ٹیموں کی شرٹس،ملکوں کے جھنڈے، کی چین وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں، ہمارے ملک میں مرچنڈائر کا کوئی رواج نہیں ہے، جب جعلی شرٹس 2،3 سو روپے میں دستیاب ہوں گی تو ایک ہزار یا 1500 سو میں اصل شرٹ کون خریدے گا۔
حالانکہ دونوں کی کوالٹی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، پی سی بی کو اس حوالے سے کچھ سوچنا پڑے گا، جعلی مصنوعات کو روکنا لازمی ہے،فرنچائز نقصانات کا رونا روتی رہتی ہیں، اس سے انھیں بھی کچھ تو آمدنی ہوگی، ابتدائی میچز میں تو سوشل ڈسٹینس کا خیال رکھا گیا، بار بار رضاکار آ کر لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایت بھی دیتے لیکن اس وقت رش کم تھا، 20 فیصد شائقین ہی آ رہے تھے، یہ تعداد 50 فیصد تک پہنچی تو اب ایس او پیز اتنی اچھی طرح فالو نہیں ہو رہے، بیشتر افراد اتوار کو بغیر ماسک کے موجود تھے۔
حالانکہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے، احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا لازمی ہے، پی سی بی کو شائقین کو سہولیات بھی فراہم کرنا ہوں گی،نیشنل اسٹیڈیم میں مچھروں کی بھرمار ہے،گوکہ میچ سے قبل اسپرے ہوتا رہا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، لوگوں نے یہ بھی شکایت کی کہ کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت ہوئیں، واش رومز میں بھی صفائی کا خیال نہیں رکھا گیا،ان باتوں پر آفیشلز کو توجہ دینا ہوگی،اچھی بات یہ ہے کہ کرکٹ ہو رہی ہے اور لوگ انجوائے بھی کر رہے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، ساتھ ہی سخت سیکیورٹی برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ملکی میدان ایسے ہی آباد رہیں، کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کے میچ میں کئی بار گرما گرمی بھی دیکھنے میں آئی۔
کھیل میں رقابت بْری بات نہیں لیکن تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، میچ میں محمد عامر کا رویہ اتنا اچھا نہ تھا، لاہور قلندرز کے بعض کھلاڑیوں سے نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوا، گوکہ کوئی آفیشل شکایت تو نہیں ہوئی لیکن واضح طور پر دونوں ٹیموں میں کشیدگی دیکھی گئی، شکست کے بعد کراچی کنگز کے اعلیٰ حکام حریف آفیشلز سے ہاتھ ملائے بغیر چلے گئے، ویسے لاہور نے پہلے بھی کنگز کے رویے کی شکایت کی تھی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا تھا، اس بار بھی کر لیتے تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔
یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ میں اب تک پی ایس ایل 6کے جتنے بھی میچز میں گیا وسیم خان سے میرا سامنا ضرور ہوا، ہر بار مجھے دیکھ کر وہ چہرہ دوسری جانب پھیر لیتے، ساتھ موجود میرے دوست نے کہا کہ تم کام ہی ایسے کرتے ہو کہ بورڈ والے ناراض رہتے ہیں، اس پر میں نے بھی ڈائیلاگ بول دیا کہ ’’میں صرف سچ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔آخر میں آپ سب کی محبتوں کا بہت شکریہ، ٹویٹر پر میرے ایک لاکھ فالورز مکمل ہو گئے، 3،4سال پہلے یہ تعداد ساڑھے تین سو تھی مگر نجم سیٹھی کے دور میں پی سی بی والوں نے احساس دلایا کہ آپ کتنے بھی سینئر ہوں اگر سوشل میڈیا پر فالوور نہیں تو اہمیت نہیں ہوتی، خیر وقت کے ساتھ چلنا بھی اچھی بات ہے۔ ابھی پی ایس ایل سے لطف اندوز ہوں،ملکی سرزمین پر بڑے بڑے اسٹارز ایکشن میں ہیں ہمیں اور کیا چاہیے۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post پی ایس ایل ایک شائق کی نظرسے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3019a4D
via IFTTT
No comments:
Post a Comment